سعودی سسٹم، پرائیویٹ حجاج کا مسئلہ بن گیا

امتیاز عاصی
حج کی ادائیگی میں مشکلات کا پیش آنا قدرتی امر ہے۔اسی لئے حج کا احرام باندھتے وقت اللہ سبحانہ سے حج آسان کرنے کی دعا مانگی جاتی ہے۔عالم اسلام سے آنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کے لئے انتظامات جان جوکھوں کا کام ہے البتہ سعودی حکومت ہر سال حج انتظامات میں نت نئی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے جس کا مقصد حجاج اور منتظمین کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ جب سے سعودی حکومت نے منیٰ میںخیموں کے زون کی تفویض کا طریقہ کار متعارف کرایا ہے مقابلے کا ماحول پیدا ہو گیا ہے ۔منی میں زون اے اور بی میں رکھے جانے والے حجاج کو معمول سے زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے جس سے انہیں جمرات کے قریب قیام کے لئے جگہ مل جاتی ہے۔گزشتہ کئی برس سے جمرات کے قریب زون اے اور بی پرائیویٹ اسکیم میں جانے والے حجاج کو تفویض کئے جاتے تھے تاہم امسال پرائیویٹ اسکیم کے حجاج کی بکنگ تاخیر سے ہونے کی بنا پاکستان حج مشن نے زون اے اور بی کی جگہ ریگولر اسکیم میں جانے والوں کا الاٹ کر دی جس سے کئی سالوں سے زون اے اور بی میں پرائیویٹ اسکیم کے عازمین حج کے لئے جگہ لینے والے حج گروپ آرگنائزروں کے لئے مشکلات پیدا کر دیں۔تازہ ترین صورت حال کے مطابق ابھی تک صرف پرائیویٹ اسکیم کے بارہ ہزار عازمین حج کو زون اے میں جگہ مل سکی ہے جب کہ 77ہزار حجاج زون
اے اور بی سے باہر ہیں۔کچھ اسی طرح کی صورت حال سے بنگلہ دیش، مصر، بھارت اور انڈونیشیا بھی دوچار ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پرائیویٹ اسکیم کے قریبا پانچ لاکھ حجاج تبدیل شدہ صورت حال سے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ سعودی وزارت حج نے پرائیویٹ اسکیم کے منتظمین کو گزشتہ سا ل 27 اکتوبر سے قبل زون میں خیموں کے اخراجات بھیجنے کو کہا تھا جس کے بعد پرائیویٹ حج گروپ آرگنائزروں نے اپنے اپنے کلیسٹر کے حجاج کے واجبات بھیج دیئے۔چنانچہ ابھی زون اے اور بی کا تصفیہ نہیں ہوا تھا کہ سعودی وزارت حج نے طوافہ کمپنیوں کو اڑتالیس گھنٹے میں معلیمن کے مکاتب اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی رقوم بھیجنے کی ہدایت کر دی۔بنگلہ دیش، مصربھارت ،پاکستان اور انڈونیشیا کے پرائیویٹ اسکیم کے حجاج کو شمار کریں تو پانچ لاکھ حجاج کرام زون اے ،بی اور سی سے محروم رہ جائیں گے۔سعودی وزارت حج کی ہدایات کے برعکس
بعض پرائیویٹ گروپ آرگنائزروں نے 25مارچ تک طوافہ کمپنیوں کے واجبات نہیں بھیجے ہیں۔ سعودی وزارت حج نے اس دوران حج پورٹل بند کر دیا جس سے پرائیویٹ گروپ لے جانے والوں کی مشکلات اور بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ سالوں سے طریقہ کار چل رہا تھا نجی اسکیم میں جانے والے حجاج کو پہلے زون الاٹ کئے جاتے ہیں جس کے بعد پرائیویٹ حج گروپ آرگنائزرطوافہ کمپنیوں سے مکاتب اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کے معاہدے کرتے تھے۔ سوال ہے سعودی وزارت حج نے ابھی تک پرائیویٹ گروپس میں جانے والے حجاج کو زون الاٹ نہیں کئے ہیں وہ طوافہ کمپنیوں سے معلیمن کے مکاتب اور ٹرانسپورٹ کے معاہدے کیسے کریں گئے ؟عازمین حج کی سعودی عرب روانگی میں ایک ماہ کا وقت رہ گیا ہے اس دوران عازمین حج کے لئے حج ویزوں کا اجراء منیٰ میں خیموں کے علاوہ طوافہ کمپنیوں سے ایگرمنٹ کرنا ہیں جب کہ شوال کے آخر میں حج ویزے بند کر دیئے جاتے ہیں۔جیسا کہ پہلے عرض کیا پاکستان کے علاوہ دیگر کئی ملک اس صورت حال سے دوچار ہیں۔ایک ذرائع نے بتایا ہے وفاقی وزیر حج سردار محمد یوسف نے جدہ میں سعودی وزیر حج سے اس صورت حال کا تدارک کرنے کی درخواست کی ہے
جس کے جواب میں سعودی وزیر حج کا کہنا تھا وہ اس معاملے کو سعودی شوریٰ کے علم میں لائیں گے تاوقتیکہ معاملہ رکا رہے گا۔پرائیویٹ اسکیم میں عازمین حج زیادہ سے زیادہ سہولتوں کے پیش نظر جاتے ہیںاس مقصد کے لئے انہیں بہت زیادہ اخرجات ادا کرنے پڑتے ہیں جس کے عوض انہیں مشاعر مقدسہ میں حج کے پانچ ایام میں قیام کے دوران خیموں میں ایئر کنڈیشنز کی سہولت ، خیموں کا جمرات کے قریب ترین ہونا اور دیگر کئی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ تعجب ہے باوجود اس کے پاکستان سے پرائیویٹ اسکیم کے منتظمین اربوں روپے زرمبادلہ کی صورت میں سعودی عرب بھیج چکے ہیںمعاملات حل نہیں ہو سکے ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستان نے کئی عشروں پہلے حج ڈائریکوریٹ قائم کیا تھا جس کا مقصد پاکستان سے جانے والے عازمین کے معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنا مْقصود تھا ۔بدقسمتی سے پاکستان سے بیرون ملک پوسٹنگ پر جانے والوں میں اکثریت سفارشیوں کی ہوتی ہے خصوصا حج مشن میں ڈائریکٹر جنرل ، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے۔پاکستان جیسے معاشی طور پر غریب ملک کے خزانے سے اربوں روپے زرمبادلہ کی صورت میں حج مشن کے عملے پر خرچ ہو رہے ہیں لیکن حج مشن کے افسران کی دوڑ موسسہ جنوب ایشیاء کے چیئرمین تک محددو ہے ۔سعودی وزیر حج سے ڈائریکٹر جنرل کی ملاقات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔کئی برس پہلے اس وقت کے سیکرٹری مذہبی امور جناب لطف اللہ مفتی نے ڈائریکٹر جنرل اور کوارڈنیشن افسران کی اسامیاں کو فالتو قرار دیتے ہوئے ختم کرادیا تھا لیکن چند سال بعد ڈائریکٹر جنرل کی اسامی کو بحال کر دیا گیا۔سوال ہے حج مشن کا عملہ پورا سال کرتا کیا ہے عمرہ زائرین اپنے طور پر ٹور آپرٹیروں کے ذریعے جاتے ہیں ۔عازمین حج کی کل تعداد میں نصف پرائیویٹ اسکیم سے جاتی ہے جن کے تمام انتظامات حج گروپ آرگنائزر کرتے ہیں۔صرف ایک لاکھ حجاج کے لئے پورا سال اتنے افسران اور عملہ کی سعودی عرب میں موجودگی سمجھ سے بالاتر ہے۔جب حج گروپ آرگنائزر اپنے کوٹہ کے حجاج کی رقوم براہ راست حج مشن کے ڈائریکٹر جنرل کو بھیجتے ہیں جس کے بعد پرائیویٹ اسکیم کے عازمین حج کو زون کے الاٹمنٹ کس کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ برس پرائیویٹ اسکیم کے آرگنائزروں سے اپنی رقوم سعودی عرب میں ایک نئے اکائونٹ میں بھیجنے کی کیا تک تھی حالانکہ حج مشن کا اکائونٹ پہلے سے موجود تھا ۔دراصل حج مشن میں مبینہ بے قاعدگیوں کی وسیع پیمانے پر چھان بین کی ضرورت ہے۔ ہم وزیر شہباز شریف سے کہیں گے وہ حج مشن کے معاملات کے لئے انکوائری کے لئے خصوصی ٹیم بھیج کر حجاج کے فنڈ کے غیر ضروری اخراجات کے ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کریں۔