باتوں سے خوشبو آئے

تحریر : صفدر علی حیدری
منبر سلونی کا خطیب علم و حکمت کا دروازہ ہے۔ اس کے فرامین سن کر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ فوق کلام المخلوق تحت کلام الخالق اور کلام الامام امام الکلام ۔ ان کے فرامین بجا طور پر ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ اس موضوع پر مستقل کتب لکھی جا چکی ہیں۔ اس مختصر سے کالم میں سب کا ذکر ممکن نہیں ۔ بس نہج البلاغہ میں سے بطور تبرک کچھ گوہر ابدار بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں ۔
فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔
جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیا۔
دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے، اور پرہیز گاری ایک بڑی سپر ہے۔
یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے، اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے، اور ہڈی سے سنتا ہے، اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔
جب دنیا ( اپنی نعمتوں کو لے کر) کسی کی طرف بڑھتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دے دیتی ہے، اور جب اس سے رخ موڑ لیتی ہے تو خود اس کی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے۔
لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مر جائو تو تم پر روئیں، اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔
دشمن پر قابو پائو تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو۔
جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو۔
جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹا دیں اسے حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔
مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو۔ ب
ہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے۔
ایمان، چار ستونوں پر قائم ہے: صبر، یقین، عدل اور جہاد
کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے: حد سے بڑھی ہوئی کاوش، جھگڑالُو پن، کج روی اور اختلاف۔
سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے، اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے، اور سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے، اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے۔
وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے۔
انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے، اور جتنی مروت اور جواں مردی ہو گی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی، اور جتنی غیرت ہو گی اتنی ہی پاک دامنی ہو گیبھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملہ سے ڈرتے رہو۔
لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں، جو ان کو سدھائے گا اس کی طرف جھکیں گے۔
قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔
زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے۔
دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے۔
جاہل کو نہ پائو گے، مگر یا حد سے آگے بڑھا ہوا اور یا اس سے بہت پیچھے۔
جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں۔
حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے، اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے۔
یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں، لہٰذا ( جب ایسا ہو تو) ان کیلئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔
میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے: ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے، اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے۔
جو میانہ روی اختیار کرتا ہے وہ محتاج نہیں ہوتا۔
غم آدھا بڑھاپا ہے۔
لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔
لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔
جو منصب پا لیتا ہے دست درازی کرنے لگتا ہے۔
عورتوں کی بہترین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیں: غرور، بزدلی اور کنجوسی
عقل مند وہ ہے جو ہر چیز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔
خدا کی قسم! تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک سور کی ان انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔
بہترین عمل وہ ہے جس کے بجا لانے پر تمہیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے۔
میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے، نیتوں کے بدل جانے اور ہمتوں کے پست ہو جانے سے۔
حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔
جب تنگدست ہو جائو تو صدقہ کے ذریعہ اللہ سے تجارت کرو۔
وہ تھوڑا عمل جو پابندی سے بجا لایا جاتا ہے زیادہ فائدہ مند ہے اس کثیر عمل سے کہ جس سے دل اُکتا جائے۔
جب مستحبات فرائض میں سد راہ ہوں تو انہیں چھوڑ دو۔
اللہ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم کر دیتا ہے۔
نصیحتیں کتنی زیادہ ہیں اور ان سے اثر لینا کتنا کم ہے۔
غیرت مند کبھی زنا نہیں کرتا۔
اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آ جاتی ہے، مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی۔
اللہ کا کم سے کم حق جو تم پر عائد ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کی نعمتوں سے گناہوں میں مدد نہ لو۔
دو ایسے خواہشمند ہیں جو سیر نہیں ہوتے: طالبِ علم اور طلبگارِ دنیا۔
سب سے بھاری گناہ وہ ہے جسے مرتکب ہونے والا سبک سمجھے
کمزور کا یہی زور چلتا ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے برائی کرے۔
رزق دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ جو خود ڈھونڈتا ہے اور ایک وہ جسے ڈھونڈا جاتا ہے
اتنی عقل تمہارے لئے کافی ہے کہ جو گمراہی کی راہوں کو ہدایت کے راستوں سے الگ کر کے تمہیں دکھا دے۔تمہارے نفس کی آراستگی کیلئے یہی کافی ہے کہ جس چیز کو اوروں کیلئے ناپسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔
جس ذات نے تمہیں بولنا سکھایا ہے اسی کے خلاف اپنی زبان کی تیزی صرف نہ کرو، اور جس نے تمہیں راہ پر لگایا ہے اس کے مقابلہ میں فصاحت ِگفتار کا مظاہرہ نہ کرو۔
تقویٰ، تمام خصلتوں کا سرتاج ہے۔
لوگوں سے ان کے اخلاق و اطوار میں ہم رنگ ہونا ان کے شر سے محفوظ ہو جانا ہے۔
مومن کے اوقات تین ساعتوں پر منقسم ہوتے ہیں: ایک وہ کہ جس میں اپنے پروردگار سے رازو نیاز کی باتیں کرتا ہے۔ اور ایک وہ جس میں اپنے معاش کا سر و سامان کرتا ہے۔ اور ایک وہ کہ جس میں حلال و پاکیزہ لذتوں میں اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔
جسے اپنی آبرو عزیز ہو وہ لڑائی جھگڑے سے کنارہ کش رہے۔
سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو برا کہو جس کے مانند خود تمہارے اندر موجود ہے۔
گناہ تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک صورت پاک دامنی کی ہے۔