Column

دکھاوا

تحریر : علیشبا بگٹی

مولانا جلال الدین رومی کی ایک حکایت ہے کہ ایک چڑا اور چڑیا اڑتے جا رہے تھے کہ انھیں راستے پر بکھرا ہوا دانا دنکا نظر آیا اور وہ اسے چگنے کے لیے زمین پر اتر آئے۔ چڑا بے صبری سے دانا چگنے لگا۔ لیکن چڑیا قدرے محتاط تھی۔ اس نے دیکھا کہ فاصلے پر ایک باریش داڑھی اور درویش لباس میں ایک شخص ایک برتن سے وہ دانا چن چن کر زمین پر پھینک رہا تھا۔ چڑیا نے چڑے سے کہا، ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ کہیں یہ دانا ہمیں شکار کرنے کیلئے بچھایا گیا ایک جال نہ ہو، جس پر چڑے نے جواب دیا ’’ کیسی ناشکری کی باتیں کرتی ہو۔ وہ دیکھو، ایک تو وہ نیک سیرت انسان اپنا کام کاج چھوڑ کر ہم پرندوں کا پیٹ بھرنے کے لیے دانا ڈال رہا ہے، اس پر تم ہو کہ بجائے کہ اسے دعا دینے کے، اس کی نیت پر شک کر رہی ہو، چپ چاپ دانا کھائو اور اس بھلے آدمی کی لمبی عمر کی دعا مانگو‘‘۔ جس پر چڑیا بھی دانا کھانے لگ گئی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اس شخص نے اپنے بغل میں چھپائے ہوئے تھیلے سے کمان نکالی اور چڑے کا نشانہ باندھ کر تیر چلایا جو سیدھا چڑے کو جا لگا اور چڑا وہیں ڈھیر ہوگیا۔ چڑیا کے جسم سے جیسے جان ہی نکل گئی اور اس کا کلیجہ پھٹنے لگا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ شکاری اسے بھی اپنا نشانہ بناتا، چڑیا روتے ہوئے دل کے ساتھ وہاں سے اڑ گئی اور سیدھی بادشاہ کے دربار میں پہنچی۔ اس نے بڑے دکھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے ساری روداد بیان کی۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں کو حکم دیا، جائو اور اس شخص کو پکڑ کر یہاں لے آئو۔ درباریوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس شخص کو گرفتار کرکے لے آئے۔ بادشاہ نے اس سے استفسار کیا ’’ کیا یہ بات سچ ہے کہ تم نے آج ایک چڑے کو مارا ہے‘‘، جس پر اس شخص نے اس الزام کو قبول کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک شکاری ہے اور اس کا شکار کرنے کا یہی طریقہ تھا۔ بادشاہ نے چڑیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’ اب سزا کا فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر چاہو تو میں ابھی اس شخص کا سر قلم کرنے کا حکم دے دیتا ہوں، جس پر چڑیا نے جو الفاظ کہے، وہ یہ تھے، ’’ نہیں جہاں پناہ، اس کا سر قلم مت کیجئے، بس اسے یہ حکم دے دیجئے کہ اگر یہ شکاری ہے تو کھلے عام شکاری کا لباس پہن کر گھومے اور تیر کمان سامنے ہاتھ میں رکھے۔ نیک سیرتی اور رحمدلی کا دکھاوا چھوڑ دے‘‘۔
حدیث ہے کہ ’’ قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ ان میں سے پہلا شخص ایسا ہوگا جو کہ شہید ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا، شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟، وہ عرض کرے گا، میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کردی۔ رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں، تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جائو اسے اور ڈال دو جہنم میں، فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک دوسرا شخص رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا جو عالم و قاری ہوگا، رب تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔ پھر رب تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟، وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا، قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا اس غرض سے کہ عالم کہلایا جائے، قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے، تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو! لے جائو اسے اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر آخر میں ایک سخی، رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی جانے والی نعمتیں یاد دلوائے گا۔ وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر رب فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟، وہ عرض کرے گا، اے رب، میں نے اپنی ساری دولت تیری مخلوق پر لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو! لے جائو، اس سخی کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے‘‘۔
اس طویل حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت وہی قابل قبول ہے جو خالصتاً اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے، جبکہ ایسی عبادت جو اللّٰہ تعالیٰ کی بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کی جائے ، وہ خواہ کوئی بھی کرے، جہنم کا ایندھن ثابت ہوگی۔
نبیؐ نے فرمایا، ’’ مجھے تم لوگوں پر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ چھوٹا شرک ہے‘‘، صحابہ کرامؓ نے عرض کی کہ یا رسولؐ اللّٰہ، چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا ’’ عبادت اور نیکیوں میں دکھاوا، یعنی ریاکاری، قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ دیا جائے گا، تو اللّٰہ تعالیٰ ان دکھاوا کرنے والوں سے کہے گا، جن لوگوں کو تم لوگ تعریف، واہ واہ حاصل کرنے کے لئے اپنی عبادات و نیک کام دکھایا کرتے تھے، اب اجر و ثواب کے لئے انہی کے پاس جائو، اور دیکھو کیا تم ان لوگوں کے پاس کوئی بدلہ پاتے ہو؟‘‘۔ نبیؐ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ ’’ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں خبر نہ دوں جس سے تم پر دجال کے فتنے سے زیادہ ڈرتا ہوں؟، صحابہ نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ اے اللّٰہ کے رسولؐ ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا ۔ شرکِ خَفِی ۔۔۔۔ کہ ایک آدمی نماز پڑھے گا اور اپنی نماز کو اچھے انداز میں اس لئے پڑھے گا، کیونکہ اس کو دوسرا آدمی دیکھ رہا ہوگا‘‘۔

جواب دیں

Back to top button