Column

بلوچستان میں دشمن کا ایجنڈا

تحریر : سیدہ عنبرین
ایک سچ چھپانے کیلئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، ایک مرتبہ کی ہزیمت سے بچنے کی کوشش کرنے والا جھوٹ کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے، پھر لاکھ ہاتھ پائوں چلائے باہر نہیں نکل سکتا، بلوچستان میں قریباً ہر معاملے میں ایسا ہی نظر آتا ہے، شاید یہ سب کچھ بطور پالیسی اپنا لیا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی والے پرامن احتجاج کر رہے تھے، بعض اطلاعات کے مطابق ان کے پاس کچھ لاشیں تھیں، پولیس نے انہیں منتشر کرنے اور لاشیں چھیننے کیلئے لاٹھی چارج کیا، پھر گولی چلانی، جس کے نتیجے میں ان کے مطابق تین افراد مارے گئے اور آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔ حکومت کہتی ہے گولی نہیں چلائی، نہیں چلائی تو ہلاکتیں کیسے ہو گئیں۔ جنہیں دنیا بھر کا آزاد میڈیا رپورٹ کر رہا ہے، گولی نہیں چلائی تو دھرنا بھی زمین پر نہیں ہو گا شاید کہیں ہوا میں ہو گا، لیکن جن لاشوں کو وہ لیے بیٹھے تھے وہ کن کی تھیں۔ اس کا بھی کہیں سے کوئی جواب نہیں مل رہا، چند روز قبل کالی قبرستان میں رات کے اندھیرے میں سترہ لاشوں کے لائے جانے کی خبر آئی، جس پر بتایا گیا یہ دہشتگردوں کی لاشیں ہیں، جو بولان ٹرین کو ہائی جیک کرنے والوں کی ہیں۔
ٹرین کے یرغمالی رہا ہو کر گھروں کو پہنچے تو سب نے ایک ہی انداز میں راستہ بیان کیا۔ سب کا بیان ایک دوسرے سے ملتا تھا، پہلے دھماکہ ہوا، ٹرین کی کچھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں، پھر ٹرین پر اطراف سے فائرنگ شروع ہو گئی، جو نصف گھنٹہ سے زائد عرصہ تک جاری رہی، اس کے بعد دہشتگرد ٹرین کے قریب آگئے اور مسافروں کو اتارنے کے بعد عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو رہا کر دیا، شناختی کارڈ چیک کیے اور کچھ افراد کو ساتھ لے جا کر مختلف ٹولیوں میں بٹھا دیا، تمام رات وہ چند افراد کو اٹھاتے اور انہیں سب کے سامنے گولی مار دیتے، رات بھیگ گئی، چاند پہاڑوں کی اوٹ میں چلا گیا تو برطرف اندھیرا چھا گیا، بڑی تعداد میں دہشتگرد پہاڑوں کی طرف چلے گئے، کچھ لوگوں کو ساتھ لے گئے، اگلے روز آپریشن شروع ہونے سے قبل وہاں پانچ، چھ دہشتگرد پہرے پر بیٹھے تھے، جانے والے انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے کہہ رہے تھی ہمارا مشن مکمل ہو گیا ہے، ہم جارہے ہیں، یہ یرغمالی تمہارے حوالے ہیں، اب آپریشن ہو گا، آپ سب مارے جائینگے، آپ کو قربانی مبارک ہو، جانے والے چلے گئے۔
حکومتی بیان کے مطابق انہوں نے آپریشن کیا اور بغیر کسی جانی نقصان کے تمام زندہ افراد کو رہا کر ا لیا، تمام دہشتگرد مارے گئے، دہشتگردوں کے قبضے میں کوئی یرغمالی نہیں چھوڑا گیا۔ اس تفصیل پر من و عن یقین کر لیتے ہیں، یہ ہماری حکومت کے ذمہ داران کا بیان ہے۔ دہشتگردوں کا ہوتا تو ہم اسے نہ مانتے اور نہ ماننے کی دو سو وجوہات بھی بیان کرتے، رہا ہونے والے اپنے گھروں کو پہنچ گئے، پھر کسی کا کوئی بیان سامنے نہ آیا۔ دہشتگردوں کے ساتھ کیا ہوا کسی کو نہیں معلوم، انہیں وہیں کھلے آسمان تلے چھوڑ دیا گیا یا کسی گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی گئی، کوئی نہیں جانتا ، البتہ یہ اندازہ ہوا کہ واقعے پر مٹی ڈال دی گئی ہے۔
زلزلہ تو اس وقت آیا جب پولیس کی گاڑیوں کے نرغے میں نصف شب کے قریب درجن بھر سے زیادہ لاشیں تدفین کیلئے لائی گئیں، قبرستان عملے میں سے کسی نے کسی کو اس کی اطلاع کردی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا اور ہنگامہ شروع ہو گیا۔ قبرستان جمع ہونے والوں نے لاشیں اپنے قبضے میں لے لیں۔ اگلے روز انہوں نے لاشوں کو درمیان میں رکھ کر دھرنا دے دیا، بلوچستان میں سڑکیں بلاک کردی گئیں اور شٹر ڈائوں کی کال دے دی گئی، جس پر عمل ہوا۔ مظاہرین پوچھتے ہیں یہ کون ہیں جن کے چہرے پہنچانے نہیں جاتے، جواب ملتا ہے یہ سب دہشتگرد ہیں جنہیں ٹرین ان کائونٹر میں ہلاک کیا گیا ہے، چلئے اس پر بھی یقین کر لیتے ہیں یہ وہی دہشتگرد تھے ، اگر یہ وہی تھے تو انہیں نصف شب کے بعد نہایت خاموشی سے دفن کیوں کیا جارہا تھا، اس کا جواب دینے کیلئے کوئی تیار نہیں۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک معتدل مزاج سیاست دان نے ایوان میں کھڑے ہو کر ایک روز قبل بتایا تھا کہ37نامعلوم لاشیں موجود تھیں، جنہیں راز داری سے دفنانے کے انتظامات ہو رہے ہیں، ان کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی بتائی گئی یا وہ اس سے زیادہ تھی، اس پر بھی پردہ پڑا ہے، ٹرین آپریشن مکمل ہونے کے بعد جب کرائم سین سے سب کچھ ہٹا لیا گیا تو خیال کیا جارہا تھا کہ اب تمام دہشتگردوں کی لاشیں کوئٹہ سول ہسپتال لائی جائینگی، جہاں ان کا ڈی این اے حاصل کرنے کے بعد نادرا سے ان کی شناخت حاصل کی جائے گی، جو صرف ٹی وی پر چلنے والی فوٹیج میں نقاب کے پیچھے چھپے چہروں کی شناخت کر لیتا ہے، وہ ایک ہی دن میں ان دہشتگردوں کی شناخت سامنے لے آئیگا، جس کے بعد اخبارات کو ان کی تصاویر جاری کرنے کے ساتھ ہدایت بھی آئے گی کہ ان تصویروں کو صفحہ اول پر شائع کیا جائے، ساتھ ہی بتایا جائیگا کون کس کا بیٹا تھا، کہاں کا رہائشی تھا، آبائی گھر کہاں تھا۔ اگر وہ سب کے سب غیر ملکی تھے تو تب بھی ان کی شناخت، نام اور تصویریں سامنے لانی چاہیے تھیں، تاکہ واضع ہوتا کہ یہ تخریب کار تھے تو ان کا تعلق کس ملک سے تھا، یہ تمام مراحل اسی انداز میں طے کیے جاتے تو آج درپیش صورتحال ایسی نہ ہوتی جو بن گئی ہے ۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے تعلق رکھنے والے کہتے ہیں وہ یہ نامعلوم افراد تھے، جو عرصہ دراز قبل حراست میں لیے گئے ، اب انہیں ٹرین دہشتگردی کی آڑ میں انجام کو پہنچا دیا گیا ہے۔ جواباً دہشتگردوں نے مزید آٹھ افراد قتل کر دئیے ہیں، چار افراد چار پولیس اہلکار۔
پولیس مظاہرین پر گولی اس وقت چلاتی ہے جب خطرہ محسوس ہو کہ پولیس اہلکاروں یا افسروں پر حملہ ہونے والا ہے، دوسری صورت پولیس کو یقین ہو جائے کہ اب حساس املاک پر یلغار ہونے والی ہے، انہیں تباہ کیا جاسکتا ہے، آزاد ذرائع سے جاری فوٹیج بتاتی ہے ایسا کچھ بھی نہ تھا، پھر گولی کیوں چلائی گئی، انتہائی قدم کے طور پر بھی پولیس ہوائی فائرنگ کرتی ہے، سیدھی گولیاں نہیں چلائی جاتیں۔
پنجاب میں پولیس کسی کے گھر گھس جائے، ہمسائے مست مگن رہتے ہیں، سندھ میں پولیس دیواریں پھاند کر گھر میں داخل ہو تو ہمسائے ادھ کھلی کھڑکیوں سے جھانکتے ہیں کیا ہو رہا ہے مگر خاموش رہتے ہیں، صوبہ خیبر اور بلوچستان میں ایسا نہیں ہے، ایک گھر سے شور اٹھے تو آس پاس ہر گھر کا مکین باہر نکل آتا ہے، مزاحمت کرتا ہے، پوچھتا ہے تم کون ہو اور کیوں گھروں کے دروازے توڑ رہے ہو، کیوں عورتوں کو گھسیٹ رہے ہو، مناسب جواب نہ ملے تو ڈٹ جاتے ہیں، مر جاتے ہیں، عورت کا احترام اگر کہیں باقی ہے تو وہ خیبر ہے یا بلوچستان ہے، مردوں کی دھڑا دھڑ گرفتاریوں کے بعد سوچ سمجھ کر ماہ رنگ بلوچ کو قیادت سوپنی گئی ہے، اب عورتوں پر جتنا تشدد ہوگا آگ اتنی ہی زیادہ بھڑکے گی، آگ سب کچھ جلا کر رکھ کر دیتی ہے، سب کچھ خاک میں ملا دیتی ہے، دشمن کا ایجنڈا یہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button