Column

ہوم ورک کی کاپیاں پھاڑ کر جشن منانے کی بری رسم

تحریر : رفیع صحرائی
میرے سامنے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک جواب طلبی کا نوٹس ہے۔ یہ نوٹس ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری ایجوکیشن ضلع گوجرانوالہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے جس میں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر مرکز راہوالی کینٹ کی جواب طلبی کی گئی ہے۔ جواب طلبی کی وجہ بڑی دلچسپ ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے اپنے ماتحت اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کو ایک ایسے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو انہوں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ کام طلبہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ جواب طلبی نوٹس کے مندرجات کے مطابق ضلعی افسر کی جانب سے اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا گیا ہے کہ 21مارچ 2025ء کو گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول راہوالی کے طلبہ نے اپنے ہوم ورک کی کاپیوں کے ٹکڑے کر کے کاغذات جی ٹی روڈ گوجرانوالہ پر بکھیر دیئے۔ اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے کہ ایسا ان کے ڈھیلے نظم و ضبط اور بدانتظامی کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے وہ 22مارچ 2025ء کو دن ایک بجے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری گوجرانوالہ کے حضور پیش ہو کر تحریری طور پر وضاحت پیش کریں۔ اب تک اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر اپنی وضاحت پیش کر چکے ہوں گے۔
آج کل یہ عجیب کلچر چل نکلا ہے کہ سکولوں کے طلبہ امتحان کے آخری دن اپنی ہوم ورک کی کاپیوں کے صفحات نکال کر ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں اور مصروف سڑکوں پر آ کر ٹولیوں کی صورت میں کاغذ کے وہ ٹکڑے فضا میں بکھیر دیتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے۔ ہوا نہ بھی چل رہی ہو تو سڑکوں پر ٹریفک کی وجہ سے ہوا چلتی رہتی ہے۔ کاغذ کے یہ ٹکڑے فضا میں دور دور تک بکھر جاتے ہیں۔ خود مجھے 24فروری کو اس طرح کا منظر فیروز پور روڈ لاہور پر دیکھنے کو ملا تھا۔ مجھے ایک تقریب میں شرکت کے لیے الحمرا آرٹس کونسل پہنچنا تھا۔ میرا بیٹا اویس گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ فیروز پور روڈ پر ٹریفک کا رش ویسے بھی کافی ہوتا ہے۔ دائیں طرف کی لین کو گرین لین کا نام دے کر موٹر سائیکل والوں کے لیے مخصوص کرنے کی وجہ سے گاڑی والوں کے لیے سڑک اب سکڑ چکی ہے۔ قریباً دوپہر بارہ بجے کا وقت تھا۔ اچانک ہم سے آگے چلتی گاڑیوں کی رفتار کافی سست ہو گئی۔ تبھی اپنے سے قریباً ایک ڈیڑھ سو میٹر آگے ہمیں فضا میں ہزاروں نوٹ بکھرتے نظر آئے۔ مجھے لگا یہ کسی سیاست دان کا والہانہ استقبال کیا جا رہا ہے جبکہ اویس کا خیال تھا کہ یہ کوئی بارات پیدل جا رہی ہے اور منچلے باراتی نوٹ نچھاور کرتے جا رہے ہیں۔ ہم سست روی سے جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے نوٹ نچھاور کرنے والا قافلہ بھی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ تھوڑا آگے پہنچے تو دیکھا کہ سڑک پر سفید کاغذ کے ٹکڑے بڑی تعداد میں بکھرے ہوئے تھے جو گاڑیوں کی ہوا سے اڑ رہے تھے۔ جنہیں ہم نوٹ سمجھ رہے تھے وہ یہی کاغذ کے ٹکڑے تھے۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ٹکڑے کیوں پھینکے گئے ہیں۔ یہ تو پتا چل گیا تھا کہ یہ طلبہ کی طرف سے ہوم ورک کی کاپیاں پھاڑ کر ان کے ٹکڑے کیے گئے ہیں لیکن اس طرح سے احتجاج کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ کافی آگے جا کر ہمیں سڑک کے کناری چند طالب علم نظر آئے۔ ہم نے گاڑی روک کر جب ان سے سڑک پر کاغذ بکھیرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک پرائیویٹ سکول کے طلباء ہیں۔ آج سکول میں ان کا آخری پیپر تھا۔ امتحان ختم ہونے کی خوشی کو وہ کاغذ بکھیر کر سیلیبریٹ کر رہے تھے۔ بظاہر طلباء کا یہ عمل بے ضرر تھا لیکن طلباء اس بات کو نظرانداز کر گئے تھے کہ مصروف ترین سڑک پر ان کا یہ عمل کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ نیز انہیں یہ احساس بھی نہیں تھا کہ یہ مقدس اوراق ہیں جن کی وہ توہین کر رہے ہیں۔
صرف لاہور پر ہی موقوف نہیں۔ دو دن پہلے یہی عمل میں نے اپنے چھوٹے سے شہر میں ہوتے دیکھا ہے۔ شہر کی اہم سڑک کاغذ کے ٹکڑوں سے سفید ہوئی پڑی تھی۔ سڑکوں پر کاغذ بکھیر کر بچوں کی طرف سے ’’ جشن‘‘ منانے کا یہ بالکل انوکھا انداز ہے جس کے مضمرات کو دیکھتے ہوئے طلبہ کے اس عمل کی کسی صورت بھی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہوم ورک کی کاپیوں پر طلباء کے نام، والد کا نام، اساتذہ کا نام لکھا ہوتا ہے۔ ان پر قرآنی آیات لکھی ہو سکتی ہیں۔ احادیث اور ان کے حوالہ جات لکھے ہو سکتے ہیں۔ یہ مقدس تحریریں ہوتی ہیں۔ ان کے تقدس کو یوں سڑکوں پر پامال کرنا کسی صورت بھی جائز یا درست عمل نہیں ہے۔ یہ برائی بہت تیزی سے پھیلی ہے۔ اگر ابھی سے اس کا سدِباب نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں طلباء کی طرف سے درسی کتب کا بھی یہی حال ہو گا۔ ہم غیرمسلموں پر قرآن پاک کی بیحرمتی اور توہین کرنے پر شدید ناراض ہوتے ہیں۔ جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کے علاوہ جوشِ جذبات میں سرکاری و غیرسرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے لیکن اپنے اعمال پر کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا کہ نادانستگی میں ہم خود بھی توہینِ قرآن کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ ہوم ورک کی کاپیوں پر تسمیہ لازمی لکھی جاتی ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو تعلیم دینے اور لینے کا عمل بہت مقدس ہے۔ اس تقدس کو پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔
راہوالی میں ہونے والے واقعہ کا ذمہ دار اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کو ٹھہرایا گیا ہے اور ان پر لوز ڈسپلن کے ساتھ ساتھ مس مینجمنٹ کا چارج بھی لگایا گیا ہے۔ یہ واقعہ سکول کی چاردیواری سے باہر پیش آیا ہے۔ سکول سے باہر ہونے والے واقعے کی ذمہ داری سکول انتظامیہ یا ایجوکیشن آفیسر پر ڈالنا زیادہ مناسب نہیں ہے۔(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
اس عمل کا ذمہ دار کوئی ایک شخص نہیں ہے۔ اصل ذمہ دار ہمارا تعلیمی نظام ہے جس میں استاد کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے فٹ بال کی طرح طالب علم کے آگے پھینک دیا گیا ہے۔ مار نہیں پیار کے سلوگن نے ہماری تعلیم اور تعلیمی عمل کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ استاد غیر حاضر طلباء سے غیر حاضری کی پوچھ گچھ نہیں کر سکتا۔ ہوم ورک نہ کرنے پر باز پرس نہیں کر سکتا یہاں تک کہ اس پر ناراضی کا اظہار بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ طالب علم کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ طالب علم کو لامحدود حقوق دے دیئے گئے ہیں۔ صرف استاد ہی تعلیمی نظام میں ایسا فرد ہے جسے کوئی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ طالب علم جب چاہے جھوٹا الزام لگا کر استاد پر پرچہ درج کروا دے۔
جب تک معاشرے میں استاد کی عزت تھی تب تک سب کچھ بہترین چل رہا تھا۔ استاد کو رسوا کرنے کا یہی انجام ہونا تھا۔ مستقبل میں ہوم ورک کی کاپیاں پھاڑ کر ان کے کاغذات ہوا میں اڑانے کی پریکٹس کا سدِباب کرنے کے لیے محکمہ تعلیم، اساتذہ، والدین اور کمیونٹی کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔ بچوں کو کاپیوں اور کتابوں کے تقدس سے آگاہ کرنا ہو گا تاکہ انہیں احساس ہو کہ کاپیاں پھاڑ کر سڑکوں پر پھینکنا اچھا عمل نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button