ColumnImtiaz Aasi

قومی سلامتی کمیٹی اور شکوے

تحریر : امتیاز عاصی
1968ء کی بات ہے ایوب خان کے خلاف سیاسی جماعتوں نے تحریک کا آغاز کیا تو ان کا مطالبہ تھا کہ ملک میں فوری طور پر منصفانہ انتخابات کرائے جائیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی خاطر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ شیخ مجیب الرحمان جو اگرتلہ سازش کیس میں نظر بند تھے کو پیرول پر رہا کرکے اسلام آباد لایا گیا۔ ویسے بھی دنیا کے بہت سے ملکوں میں جب کبھی سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی ضرورت پڑی جیلوں میں بند سیاسی رہنمائوں کو پیرول پر رہائی دے دی گئی۔ ان دنوں یہ بحث چل رہی ہے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی قیادت نے شرکت نہ کرکے حب الوطنی کا ثبوت نہیں دیا ۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود تحریک انصاف نے بہت سی نشستیں حاصل کیں جو اس امر کا غماز ہے عمران خان کی جماعت ملک کی مقبول ترین جماعت ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی عروج پر ہے بقول مولانا فضل الرحمن کے پی کے بعض علاقوں میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے کچھ ایسی صورت حال ملک کے رقبی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ہے۔ سوال ہے حکومت نے پی ٹی آئی والوں کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تو عمران خان کو پیرول پر رہا کر کے اجلاس میں بلا لیا جاتا تو کون سی قیامت آجاتی یا اس نے کہیں فرار ہو جانا تھا۔ کوئی مانے نہ مانے حکومت کسی طریقہ سے عمران خان کو مائنس کرنے کے لئے کوشاں ہے حالانکہ پی ٹی آئی نام ہی عمران خان کا ہے۔2018ء اور گزشتہ انتخابات میں عوام نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو نہیں عمران خان کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا تھا۔ جس طرح کی صورت حال سے ہمارا ملک دوچار ہے ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو مل بیٹھ کر ہی کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو نظر انداز کرکے قومی سلامتی کے معاملات پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ جن پی ٹی آئی رہنمائوں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی کم از کم ان کی عمران خان سے ملاقات کرا دی جاتی تو حکومت سرخرو ہو جاتی لیکن ملاقات نہ کرا کر حکومت نے رسوائی اپنے ذمہ لے لی۔ یہاں تو عجیب تماشا ہے عمران خان سے ملاقات نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی رٹ کی سماعت کے روز کاز لسٹ منسوخ کر دی گئی مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کر دیا گیا ؟۔ ملک میں عدلیہ واحد فورم ہوتا ہے جہاں سے عوام کو انصاف کی توقع ہوتی ہے آئین میں ترامیم کرکے عدلیہ کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج سردار اعجاز اسحاق خان کے حوالے سے خبر نظر سے گزری تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ ایک جج کی طرف سے سوال اٹھتا ہے کیا چیف جسٹس کو جج کی مرضی کے بغیر کوئی مقدمہ دوسری عدالت میں بھیجنے کا اختیار حاصل ہے؟، جس ملک میں عدلیہ کے معاملات اس نہج پر پہنچ جائیں ایسے ملک میں عوام کو عدلیہ سے منصفی کی توقع ہو سکتی ہے؟ بند کمروں میں ہونے والے فیصلوں سے ملکی مسائل حل کبھی حل نہیں ہوتے اس مقصد کے لئے تمام سیٹک ہولڈر ز کی شمولیت ضروری ہے۔ تاریخ شاہد ہے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر پیپلز پارٹی کا خاتمہ ہو گیا ہے بالکل نہیں پیپلز پارٹی بھٹو کی پھانسی کے بعد دو مرتبہ وفاق میں حکومت کر چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری دوسری مرتبہ ملک کے صدر کے منصب پر فائز ہیں۔ یہ خیام خیالی ہے عمران خان کو قید و بند میں رکھ کر پی ٹی آئی کو سنگل آوٹ کیا جا سکتا ہے۔ گو ہمارا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم ہمیں حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ حکومت پی ٹی آئی سے اس حد تک خائف ہے انہیں جلسہ نہ ہی جلوس نکالنے کی اجازت ہے پی ٹی آئی کی مقبولیت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا۔ گزشتہ ماہ وفاقی دارالحکومت میں اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس کے انعقاد میں روڑے اٹکائے گئے جو اس امر کا عکاس ہے ملک میں مارشل لاء نہ جمہوریت ہے ہائبرڈ جمہوریت ہے۔ ملکی صورت حال کا تقاضا ہے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اقدامات سے متعلق رائے لی جائے۔ حالیہ وقتوں میں گزشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں پچاس فیصد اضافہ اس امر کا متقاضی ہے ہمیں وطن عزیز میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے پاکستان اپنے شہریوں کے حفاظت کے لئے بین الاقوامی قوانین کے تحت سرحد پار دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تعجب ہے ہر طرف شور مچا ہے پی ٹی آئی کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنا چاہیے تھی ۔ اس طرف کوئی جانے کو تیار نہیں ملک کے ایک سابق وزیراعظم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بانی کو اجلاس میں شرکت کے لئے پیرول پر رہائی دیدی جاتی تو کون سا بھونچال آجاتا۔ چلیں عمران خان کو پیرول پر رہائی نہ ملتی کم از کم پارٹی رہنمائوں کو جیل میں ملاقات کی اجازت دینے سے حکومت کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے تھے یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ دو سال ہونے کو ہیں پی ٹی آئی کے جو لوگ جیلوں میں ہیں انکے مقدمات کی سماعت دہشت گردی عدالتوں میں جاری ہے تاہم فیصلوں میں جانے کتنا عرصہ لگے گا؟ اپوزیشن نے رمضان المبارک کے بعد ایک اور کانفرنس کا انعقاد کرنیکا اعلان کیا ہے کیا حکومت انہیں اجازت دیگی؟ پی ٹی آئی جے یو آئی سے احتجاجی تحریک کے لئے اتحاد کی خواہاں ہے دونوں جماعتوں میں اس مقصد کے لئے ہم آہنگی ہو گئی تو حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے جب کبھی سیاسی جماعتوں نے حکومت کیخلاف تحریک چلانے کی ٹھانی فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

جواب دیں

Back to top button