کچھ لو، کچھ دو کا نام ہی جمہوریت ہے

تحریر : شاہد ندیم احمد
ملک میں گڈ گورننس اور سیاسی استحکام کو فروغ دینے اور جمہوری نظام کی مضبوطی کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے برعکس ہی سب کچھ ہو رہا ہے،حکومت اور اپوزیشن کو جہاں موقع مل رہا ہے،ایک دوسرے کو لتاڑا جارہا ہے ایک دوسرے کوخوب دھویا جارہا ہے،گزشتہ روز جو کچھ صدر مملکت کے خطاب کے دوران ہوا، وہ شدید سیاسی انتشار اور افراتفری کی علامت تھا، احتجاج حزبِ اختلاف کا سیاسی حق ہے، مگر پارلیمانی ایوان صرف اسی حق کی ادائی کیلئے نہیں،بلکہ یہاں پر سارے ہی اراکین اپنے ووٹروں کی نیابت کیلئے آتے ہیں، حزبِ اختلاف کی جمہوری ذمہ داریاں بھی حکومت ہی کی طرح اہم ہیں، حزبِ اختلاف کا فرض ہے کہ حکومتی کارکردگی کی کڑی نگرانی کرے اور عوامی اور ملکی مفادات پر پہرہ دے،لیکن اگر حکومت اور اپوزیشن نے پارلیمان کو بھی سیاسی جلسہ گاہ ہی بننا ہے تو یہ جمہوری استحکام کیلئے نہ صرف بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا،بلکہ غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کی دعوت بھی دے گا ۔
یہ جو کچھ بھی پار لیمان میں ہورہا ہے،یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے ،اس سے قبل بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے ، یہ اتحادی جو آج اپوزیشن پر اعتراض اُٹھا رہے ہیں ، لیکن یہ کل ایک دوسرے کے خلاف ایسا ہی کچھ کرتے رہے ہیں، انہوں نے ہی گو با با گو کے نعروں سے ایسے احتجاج کا آغاز کیا تھا ، یہ مکافات عمل کا حصہ ہے، جوکہ انہیں بھگتنا پڑرہا ہے، لیکن ان سب نے ہی اپنے ماضی سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے ،اس لیے اپنا ہی بویا کاٹ رہے ہیں،لیکن اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لا رہے ہیں، یہ کل بھی ایک دوسرے کو ہی گراتے رہے ہیں ، اپنے راستے سے ہٹاتے رہے ہیں اور دوسروں کیلئے استعمال ہوتے رہے ہیں ،یہ آج بھی اپنی پرانی ڈگر پر ہی چلے جارہے ہیں ، لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی باری بھی آنے والی ہے ، انہیں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کر نا پڑے گا، انہیں بھی اپنا سارا کیا دھرا سود کے ساتھ واپس لینا ہی پڑے گا۔
اس کا کوئی احساس کررہا ہے نہ ہی اپنا رویہ بدل رہا ہے تو یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا ، گز شتہ دور حکو مت میں بھی ایسا ہی کچھ بڑی مشکل سے ساڑھے تین سال چلا تھا ، اس بار شاید اتنا بھی نہیں چل پا ئے گا ، اس کا اظہار مولا نا فضل الرحمان نے بھی کر دیا ہے ، مو لا نا کا کہنا ہے کہ حکو مت سہاروں پر کھڑی ہے ،یہ سہارے جس دن ہٹیں گے ، حکومت دھڑم سے نیچے گر جائے گی ، مولانا فضل الرحمان کا کہنا بالکل بجا ہے ، کیو نکہ وہ خود بھی سہارے دینا جا نتے ہیں اور سہارے ہٹانا بھی جانتے ہیں ،کیو نکہ بار ہا گرتی حکومت کو سہارے دیتے آئے ہیں ،اس بار بھی بیشتر مواقع پر سہارا دیے رہے ہیں اور اعتراضات بھی اُٹھارہے ہیں ،تاکہ حکومت اور اپوزیشن حلقوں میں اپنی اہمیت یکساں برقرار رکھی جاسکے اور وہ اپنی سیاسی حکمت عملی میں بڑی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاسی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی اعتبار کررہی ہے نہ ہی جے یوآئی قیادت رضامندی کا اظہار کررہی ہے ،اس لیے ہی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مشترکہ جد جہد کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ، یہ معاملہ کب سلجھے گا ،اس کے قریب کے آثار دکھائی دئیے رہے ہیں نہ ہی حکو مت ایسا کوئی اپنے خلاف اتحاد بننے دیں گے کہ جس کی سر براہی مولانا فضل الرحمان کر تے نظر آئیں ، حکو مت کو مولانا کو منانا بھی آتا ہے اور اپنے ساتھ ملانا بھی خوب آتا ہے، مولانا کسی اشارے کے بغیر حکومت کے خلاف جانے والے بھی نہیں ہیں ، مولانا اپنے سیاسی پتے درست جگہ پر بروقت کھیلنے میں خاصے ماہر ہیں ، اس لیے حکو مت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ ہے نہ ہی حکومت کسی دبائو میں آرہی ہے ، لیکن پس پردہ جو کچھ خاموشی سے چل رہا ہے ، یہ حکو مت کیلئے خطرے کا باعث ضرور بن سکتا ہے۔
اس اتحادی حکومت کے پاس وقت کے ساتھ ایک اچھا موقع بھی ہے کہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپوزیشن کو نہ صرف مذاکرات کی میز پر لائے ،بلکہ ایک ایسا مشترکہ لائحہ عمل بھی بنا ئیںکہ جس سے جمہوریت مضبوط ہو سکے ، اگر جمہوریت مضبوط ہو گی تو ہی اہل سیاست غیر جمہوری قوتوں کے حصار سے نکل پائیں گے اور سول سپر میسی لا پائیں گے، ورنہ ہر دور میں بے اختیار دوسروں کے اشاروں پر ہی نا چے جائیں گے،صدر زرداری سب پر بھاری کا کہنا بالکل بجا ہے کہ جمہوریت کچھ لو،کچھ دو کا نام ہے،ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے رہنا جمہوری اصولوں کے منافی ہے،ملک و قوم کا مفاد ہر صورت میں پیش نظر رکھنا چاہئے، لیکن اس قومی مفاد کی پیش رفت کیلئے نہ صرف صدر زرداری کو اپنا بھاری پن عملی طور پر دکھانا چاہئے ، بلکہ بار بار کے آزمائے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی کوئی در میانی راستہ نکالنا چاہئے، اس صورت میں ہی ملک میں سیاسی استحکام آ پائے گا اور ملک ترقی و خوشحالی کی جانب بڑھ پائے گا۔