1988کاہیرو: جب موجودہ آئی جی پنجاب بلوچ دہشتگردوں سے پورا جہاز بازیاب کروا لائے

ملک اس وقت بلوچستان میں ٹرین دہشتگردی کی مذموم کارروائی کی وجہ سے حالت غم و غصہ میں ہے۔ حامد میر، ملک کے معروف صحافی، ہمیشہ کہانیوں کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف خبریں ہوتیں بلکہ تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتی سچائیاں بھی ہوتیں۔ اس بار ان کی تحریر ایسے واقعے کے گرد گھوم رہی ہے جو بھارتی ایما پر بلوچی شناخت تلے دہشت گردی کی بدترین حرکت تھی۔ لیکن پاکستانی نڈر افسران نے اسے فلمی انداز میں ہرا دیا۔ اور خاص بات یہ کہ موجودہ آئی جی پنجاب، ڈاکٹر عثمان انور، نے ایک ناقابلِ یقین بہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔
یہ کہانی 24 مئی 1998 کی ہے۔ گوادر ایئرپورٹ سے پی آئی اے کا ایک فوکر جہاز کراچی کے لیے روانہ ہوا تھا۔ مگر کچھ ہی دیر بعد تین مسافروں نے اسلحہ نکال کر جہاز کا رخ بھارت کی جانب موڑنے کا حکم دیا۔ ہائی جیکروں کے پاس ایک نقشہ تھا، اور وہ کوئی ایسا بھارتی ایئرپورٹ تلاش کر رہے تھے جہاں وہ جہاز اتار سکیں۔ مگر جہاز کے کپتان، عذیر خان، نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ ایک چال چلی۔
کپتان نے ہائی جیکروں کو یقین دلا دیا کہ وہ بھارت میں داخل ہو چکے ہیں اور اب بھوج ایئرپورٹ پر لینڈنگ ہوگی۔ مگر حقیقت میں جہاز ابھی بھی پاکستان کی حدود میں تھا، اور کپتان نے لینڈنگ کی اجازت حیدرآباد ایئرپورٹ سے لی۔
رات کے اندھیرے میں جہاز حیدرآباد میں اترا، اور وہاں موجود دو بہادر افسران، اختر گورچانی اور عثمان انور، نے ایک جرات مندانہ منصوبہ تیار کیا۔ وہ سادہ لباس میں جہاز کے قریب گئے، خود کو بھارتی ایئرپورٹ کے افسران ظاہر کیا، اور ہائی جیکروں کو باتوں میں الجھا دیا۔ جب موقع ملا، تو ایک زبردست حملہ کیا گیا۔
عثمان انور اور اختر گورچانی نے فلمی انداز میں تینوں ہائی جیکروں کو قابو کر لیا۔ اس دوران ایک ہائی جیکر نے فائر بھی کیا، مگر وہ گولی انہی کے ساتھی کو جا لگی۔ آخرکار تمام ہائی جیکروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
یہ آپریشن کامیاب رہا، اور پاکستان میں سکیورٹی اداروں کی مہارت کا ایک اور باب لکھا گیا۔ حامد میر نے کئی سال بعد اس کہانی کو پھر سے تلاش کیا۔
یہ کہانی صرف بہادری کی نہیں بلکہ عقل، حاضر دماغی اور حب الوطنی کی ہے۔ آج کے آئی جی پنجاب، جو اُس دن ایک جوان افسر تھے، ثابت کر چکے تھے کہ پاکستان کے محافظ ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔