دنیا

امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین کے لیے عرب ممالک کے منصوبے کو مسترد کر دیا

امریکہ اور اسرائیل نے جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے عرب منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔

منگل کو قاہرہ سربراہی اجلاس میں عرب رہنماؤں کی جانب سے منظور کی جانے والی یہ تجویز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کا متبادل ہے جس کے تحت امریکہ غزہ کی پٹی کا کنٹرول حاصل کرے گا اور اس کے رہائشیوں کو مستقل طور پر آباد کرے گا۔

فلسطینی اتھارٹی اور حماس نے عرب منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ کا انتظام عارضی طور پر آزاد ماہرین کے پینل کے ذریعے کیا جائے اور غزہ میں بین الاقوامی امن دستوں کی تعیناتی کی جائے۔

وائٹ ہاؤس اور اسرائیلی وزارت خارجہ نے عرب منصوبے کو غزہ کے حقائق سے نمٹنے میں ناکام قرار دیا ہے۔ وہ اس معاملے میں ٹرمپ کے وژن پر قائم ہیں کہ فلسطینوں کو نکال کر غزہ کی تعمیر نو کی جائے۔

عرب سربراہ اجلاس اس تشویش کے پیش نظر منعقد کیا گیا کہ غزہ میں جنگ بندی کا نازک معاہدہ ہفتے کے روز چھ ہفتوں پر محیط معاہدے کے پہلے مرحلے کی میعاد ختم ہونے کے بعد ختم ہو سکتا ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں امداد داخل ہونے سے روک دی ہے تاکہ حماس پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ جنگ بندی میں عارضی توسیع کی نئی امریکی تجویز کو قبول کرے، جس کے دوران فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے غزہ میں قید مزید یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔

حماس نے اصرار کیا کہ معاہدے کے مطابق دوسرا مرحلہ شروع ہونا چاہیے جس سے جنگ کا خاتمہ ہو اور اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا ہو سکے۔

تین مراحل پر مشتمل منصوبہ

مصر نے منگل کے روز عرب لیگ کے ایک ہنگامی اجلاس میں جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کی تعمیر نو کے لیے 53 ارب ڈالر (41 ارب پاؤنڈ) کا عرب منصوبہ پیش کیا۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں فلسطینی عوام کی کسی بھی قسم کی بے دخلی کو واضح طور پر مسترد کرنے پر زور دیا گیا اور اس خیال کو ‘بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی، انسانیت کے خلاف جرم اور نسلی صفائی’ قرار دیا گیا۔

منصوبے میں تعمیر نو کا عمل تین مرحلوں میں ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو پانچ سال تک جاری رہے گا، جس کے دوران تقریبا 1.5 ملین بے گھر غزہ کے باشندوں کو 20 لاکھ پہلے سے تعمیر شدہ رہائشی یونٹوں اور 60 ہزار مرمت شدہ گھروں میں منتقل کیا جائے گا۔

پہلا مرحلہ چھ ماہ پر محیط ہوگا، جس پر تین ارب ڈالر لاگت آئے گی اور لاکھوں ٹن ملبے اور غیر پھٹنے والے ہتھیاروں کو ہٹایا جائے گا۔

دوسرا مرحلہ دو سال تک جاری رہے گا، جس پر 20 ارب ڈالر لاگت آئے گی، اور ہاؤسنگ اور عوامی سہولیات کی تعمیر نو کی جائے گی۔

تیسرے مرحلے میں ایک ہوائی اڈے، دو بندرگاہوں اور ایک صنعتی زون کی تعمیر ہوگی اور اس مرحلے میں مزید دو سال لگیں گے اور اس پر 30 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔

عرب منصوبے میں جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کو عبوری مدت کے لیے چلانے کے لیے آزاد فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک ‘انتظامی کمیٹی’ تشکیل دینے کی بھی تجویز دی گئی ہے، ایسے وقت میں جب ‘فلسطینی اتھارٹی کو واپس آنے کے قابل بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔’

اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے والے حماس نے 2007 سے غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کر رکھا ہے اور پارلیمانی انتخابات جیتنے کے ایک سال بعد پرتشدد جھڑپوں میں فتح کے زیر اثر فلسطینی اتھارٹی کی افواج کو بے دخل کر دیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر حکمرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔

اجلاس کے دوران فلسطینی صدر محمود عباس نے عرب منصوبے کا خیر مقدم کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ اس کی حمایت کریں۔

حماس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو بے گھر کرنے کی کوششوں کو مسترد کرنے کے عرب موقف کو سراہتا ہے۔

عرب منصوبہ حقیقت کو حل نہیں کرتا

اسرائیلی وزارت خارجہ نے مصر ی منصوبے کی توثیق کرنے والے عرب لیگ کے بیان کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد کی صورتحال کے حقائق پر توجہ نہیں دیتا اور فرسودہ نظریات پر مبنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب، صدر ٹرمپ کے خیال کے ساتھ، غزہ کے لوگوں کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی مرضی کی بنیاد پر آزادانہ انتخاب کریں، اور اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے!‘

اس کے بجائے عرب ریاستوں نے اس موقع کو مناسب سمجھے بغیر اسے مسترد کر دیا اور اسرائیل کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرتے رہے۔

غزہ معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد اسرائیل اور حماس کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے کہا ہے کہ عرب منصوبے میں اس حقیقت پر توجہ نہیں دی گئی ہے کہ غزہ اس وقت ناقابل رہائش ہے اور رہائشی ملبے اور غیر پھٹے ہوئے ہتھیاروں سے ڈھکے ہوئے علاقے میں انسان زندگی نہیں گزار سکتے۔

’صدر ٹرمپ حماس سے پاک غزہ کی تعمیر نو کے اپنے وژن پر قائم ہیں اور ہم خطے میں امن اور خوشحالی لانے کے لیے مزید مذاکرات کے منتظر ہیں۔‘

ٹرمپ نے گذشتہ ماہ تجویز پیش کی تھی کہ امریکہ غزہ کا مالک ہو اور اس کی آبادی کو منتقل کرے تاکہ اسے دوبارہ تعمیر کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے گھر فلسطینیوں کو واپسی کا حق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ ان کے پاس مصر، اردن اور دیگر ممالک میں بہتر رہائش ہوگی۔

عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل حسام ذکی نے بدھ کے روز بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ کا رویہ ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ ‘فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے جبری بے دخلی پر مبنی ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔

انھوں نے عرب منصوبے پر اسرائیلی وزارت خارجہ کے ردعمل کو ’انسانیت کے خلاف اور اخلاقیات کے خلاف‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل کی طرف سے شروع کی جانے والی اس جنگ کا جزوی مقصد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا ہے۔‘

خیال رہے کہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام سے پہلے اور اس کے بعد ہونے والی جنگ کے دوران لاکھوں افراد فرار ہو گئے تھے یا اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے تھے۔

ان پناہ گزینوں میں سے بہت سے غزہ پہنچ گئے، جہاں وہ اور ان کی اولادیں آبادی کا تین چوتھائی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق مغربی کنارے میں 9 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین رہائش پذیر ہیں جبکہ اردن، شام اور لبنان میں 34 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین مقیم ہیں۔

اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023 کو سرحد پار سے ہونے والے ایک غیر معمولی حملے کے جواب میں حماس کو تباہ کرنے کی مہم شروع کی تھی، جس میں تقریبا 1200 افراد ہلاک اور 251 یرغمال بنائے گئے تھے۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اس وقت سے اب تک غزہ میں 48 ہزار 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ کے زیادہ تر باشندے کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا 70 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، صحت کی دیکھ بھال، پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے نظام تباہ ہو چکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ خوراک، ایندھن، ادویات اور پناہ گاہوں کی بھی قلت ہے۔

جواب دیں

Back to top button