ColumnImtiaz Aasi

بلوچستان تاریخی اہمیت اور شورش

تحریر : امتیاز عاصی
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کی تاریخی حیثیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کبھی انگریز اپنی افغان فاروڈ پالیسی کے تحت اسی راستے افغانستان جایا کرتے تھے۔ چمن جانے تک راستے میں دشوار گزار کھوزک پہاڑی حاہل ہونے سے انہیں افغانستان پہنچنے میں مشکلات پیش آتیں۔ انگریزوں نے اس مسلئے کا مستقل حل نکالنے کے لئے کھوزک پہاڑی سے پانچ کلومیٹر سرنگ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لئے ہندوستان سے مزدور بلائے گئے۔ مزدوروں کا دل بہلانے کے لئے ہندوستان سے شہلا نامی مشہور ڈانسر کو بلایا گیا ۔سرنگ سے پہلے جو ریلوے اسٹیشن بنایا گیا اسے شہلا باغ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ پانچ روپے کے پرانے نوٹ پر اسی سرنگ کی تصویر ہوا کرتی تھی ۔ بدقسمتی سے یہ صوبہ ملک کے معرض وجود میں آنے کے بعد امن وامان کی خراب صورت حال کا شکار ہو گیا تھا۔ ملک وجود میں آیا تو یہاں چار آزاد ریاستیں تھیں جن کا کلی کنٹرول برطانوی حکومت کے پاس تھا ۔ریاست قلات، خاران ،آواران اور لسبیلا کے امور وہاں کے سرداروں کے پاس تھے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی مساعی جمیلہ تھی جنہوں نے چاروں آزاد ریاستوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر رضامند کیا۔ ریاست قلات کے سردار میر احمد یار خان اور قائد کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں دفاع، کرنسی اور خارجہ امور وفاق کے پاس ہونے تھے جب کہ بقیہ تمام امور صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہونے تھے۔ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے سے وہاں کے سرداروں میں بے چینی کا پایا جانا قدرتی امر تھا۔ چنانچہ سرداروں کو ریاستی قانون کے دائرے میں لانے کے لئے وہاں پہلا فوجی آپریشن جنرل ایوب خان کے دور میں ہوا جس میں خان آف قلات سردار احمد یار خان کو گرفتار کرکے پنجاب کے ضلع چکوال کے علاقے کلر کہار کے ریسٹ ہائوس میں انہیں قید کر دیا گیا جہاں وہ دس برس تک قید رہے۔ اس دوران کچھ لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے جنہیں اس وعدے پر واپس پر آمادہ کیا گیا انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن زہری قبیلے کے سردار نوروز خان اور ان کے تین بیٹوں کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد نوروز خان کو فوجی عدالت نے عمر قید کی سزا دے دی جب کہ اس کے دو بیٹوں کو اور قبیلے کے چار دیگر افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ ایوبی آپریشن کے بعد جنرل یحییٰ کے دور میں دوسرا فوجی آپریشن ہوا اسی طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں تیسرا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں چوتھے فوجی آپریشن میں نواب اکبر خان بگٹی کے موت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جہاں تک بلوچستان کے عوام کے آئینی حقوق کی بات ہے ہر دور میں وہاں کے لوگوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم رکھنے سے شورش میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا گیا۔ سیاسی حکومتیں آئین اور قانون کی باتیں کرتی ہیں جب عوام کے حقوق کی بات آتی ہے تو راہ فرار اختیار کر لیتی ہیں۔ بلوچستان کے عوام کچھ ایسی صورت حال کا شکار ہیں۔ آئین میں قدرتی وسائل صوبوں کی ملکیت ہیں ۔ریکوڈک ہو یا سندھک کا منصوبہ ہو غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے وفاق کرتا ہے جب کہ ان منصوبوں سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ وفاقی حکومت لے جاتی ہے۔ چلیں مشرف دور میں سندھک چین کو دے کر ہم نے گوادر کی بندرگاہ بنالی اس کے مقابلے میں ریکوڈک کا بڑا منصوبہ عشروں سے کھٹائی میں پڑا ہے۔ گوادر کے سمند ر کی بات ہو تو مچھلیوں کو پکڑنے ٹھیکہ وفاقی حکومت کرتی ہے حالانکہ آئینی طور پر کئی سو کلومیٹر سمندر پر صوبے کا حق ہے۔ ایوبی دور میں ایران کے ساتھ تفتان میں سات کلومیٹر چوڑی اور سو کلومیٹر لمبی اراضی بلوچستان کے چرواہوں کے لئے مختص کی گئی جس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا حالانکہ اس معاہدے پر عمل درآمد ہو جاتا تو بلوچستان کے عوام کے لئے مال مویشی چرانے سے ان کے لئے روزگار کا ایک اچھا موقع فراہم کیا جا سکتا تھا۔ بلوچستان کا دوسرا بڑا مسئلہ وہاں کے لوگوں کے لاپتہ ہونے کا ہے۔ اس مقصد کے لئے عدالتی کمیشن بھی قائم کی گیا جس نے بہت سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا۔ ہمیں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے وہاں کے رہنے والے ملک دشمن طاقتوں سے مل کر ریاست کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ سیاسی حکومتوں اور طاقتور
حلقوں کو ان وجوہات کا جاننا بہت ضروری ہے جس کے بعد ایسے امور کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہیے تاکہ صوبے میں دہشتگردی کے واقعات میں کمی لائی جا سکے۔ سکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کی آئے روز شہادتوں کے بعد بلوچستان اور افغانستان کی سرحد پر واچ اینڈ وارڈ کا مضبوط نظام متعارف کرایا جانا ضروری ہے۔ حیرت ہے اتنے طویل بارڈر پر باڑ لگانے کے باوجود دہشت گردوں کی آمد کا سلسلہ بدستور جاری رہنا سوالیہ نشان ہے؟، اس ناچیز کے خیال میں حکومت کو پہلے مرحلے کے طور پر صوبے کے عوام کو آئین میں دیئے گئے حقوق دینے چاہئیں۔ جس روز حکومت نے یہ کام کر لیا دہشت گردی کے واقعات میں کمی یقینی بات ہے۔ بلوچستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے وفاق اور صوبے میں ملازمت کے مواقع پیدا کئے جانا بہت ضروری ہے تاکہ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکے۔ جیسا کہ تفتان میں بلوچستان کے چرواہوں کے لئے ایک معاہدے کے تحت جگہ مختص کی گئی تھی ایران سے ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کے لئے روزگار مہیا ہو سکے۔ وفاق کی طرف سے جو فنڈز صوبے کی ترقی کے لئے فراہم کئے جائیں وہ ترقیاتی کاموں پر صرف کئے جائیں ۔ جس صوبے میں ایک ہی قبیلے میں کئی کئی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہو وہ خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے لہذا ایسے علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی ہے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی وہاں کے رہنے والوں کی مبینہ ملی بھگت سے ممکن نہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور خان آف قلات کے مابین ہونے والے معاہدے کی کسی ایک شق پر عمل ہو جائے تو وہاں کے حالات میں بڑی تبدیلی کی امید ہے۔ جن سرداروں کی آل اولاد وطن سے باہر ہے انہیں جان کا تحفظ دینے کی گارنٹی دیتے ہوئے وطن واپس لایا جا سکتا ہے۔ دراصل ماضی واقعات نے ملک چھوڑنے والوں کا ہماری حکومتوں پر اعتماد کھو دیا ہے۔ جب تک ملک سے باہر رہنے والے بلوچ رہنمائوں اور حکومت کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو گی اس وقت تک صوبے کے حالات کے پرامن رہنے کم امکانات ہیں۔

جواب دیں

Back to top button