ColumnRoshan Lal

ججوں سے توقعات

تحریر: روشن لعل
عالمی رینکنگ میں جس عدلیہ کا درجہ انتہائی پست ہو، اس عدلیہ سے مفاد عامہ میں مطلق انصاف کی توقع رکھنے والے کی ذہنی صحت پر سوال اٹھنا ہرگز عجیب تصور نہیں کیا جانا چاہئے۔ جس عدلیہ سے مطلق انصاف کی توقع کو حیران کن تصور کیا جاتا ہو، اس عدلیہ میں موجود کسی جج سے اگر کوئی بہتری کی توقعات وابستہ کر لے تو سوچا جاسکتا ہے کہ اس کی سوچ کس حد تک ’’قابل فہم‘‘ ہوسکتی ہے۔ یہ معجزے صرف وطن عزیز میں ہوتے ہیں کہ142ملکوں کی عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ کے 130ویں نمبر کے اردگرد گھومتے رہنے کے باوجود یہاں کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی جج سے اس قسم کی توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں کہ اس کی ذات سے ہی اب مطلق انصاف کے سوتے پھوٹیں گے۔ عالمی رینکنگ میں پست درجوں پر فائز رہنے والی ہماری عدلیہ میں کسی واضح میرٹ کی بجائے محض تعلقات کی بنیاد پر جگہ بنانے والے ججوں سے توقعات وابستہ کرتے وقت یہ بھی نہیں دیکھا جاتا ہے کہ انصاف کی فراہمی کیلئے ان سے جس کردار کی امید لگائی جارہی ہے ماضی میں انہوں نے کبھی بھولے سے بھی ایسا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ناقابل اعتبار جوڈیشل سسٹم میں تعلقات کی بنا پر جگہ بنانے والے کسی جج کی اچانک بڑھک بازی سے متاثر ہوکر جب بھی کسی نے اس سے توقع وابستہ کی، نتیجہ، ہمیشہ توقعات کے برعکس برآمد ہوا۔ ایسا ہونے کی سب سے بڑی مثال سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ذات ہے۔
افتخار محمد چودھری کیخلاف پرویز مشرف کے ریفرنس دائر کرنے سے قبل ان کے جوڈیشل کیریئر میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جسے قابل ستائش قرار دیا جاسکے۔ قابل ستائش ماضی نہ ہونے کے باوجود جب افتخار چودھری نے اپنی جبری سبکدوشی کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے وردی اور چھڑی کی طاقت سے دستبردار ہونے کے قریب پہنچ چکے مشرف کیخلاف ڈٹ جانے کا تاثر دیا تو اکثر لوگوں نے یہ ماننا شروع کر دیا کہ مشرف کیخلاف ڈٹ جانے والا شخص ہی آنے والے دنوں میں ان کیلئے مسیحا ثابت ہوگا۔ جن کئی ملین لوگوں نے افتخار چودھری کو مسیحا تصور کرتے ہوئے ان سے توقعات وابستہ کیں راقم بھی کچھ عرصہ ان میں شامل رہا۔ راقم کیلئے افتخار چودھری سے توقعات وابستہ رکھنے کا دورانیہ ایک خاص وجہ سے زیادہ طویل نہیں ہوسکا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سیاسی استاد کے مرتبے پر فائز اور تمام عمر انسانی حقوق کی سربلندی کیلئے جدوجہد کرنے والے ایک بہت سینئر وکیل نے ایک دن افتخار چودھری کے متعلق ایسی بات کردی جس سے توجہ سابق چیف جسٹس کی تصویر کے دوسرے رخ کی طرف مبذول ہوگئی۔ یہ سینئر وکیل حالانکہ افتخار چودھری کی بحالی کیخلاف نہیں تھے لیکن پھر بھی انہوں نے سابق چیف جسٹس کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی بات کہہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ افتخار چودھری جب حیدرآباد کے کسی لاء کالج کا طالب علم تھا، اس سے کئی برس پہلے وہ سپریم کورٹ میں وکالت کا آغاز کر چکے تھے۔ ان کے مطابق، افتخار چودھری نے لوئر کورٹ سے وکالت شروع کرنے سے چیف جسٹس بننے تک کا غیر شفاف سفر ان کے سامنے طے کیا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے کبھی بھی افتخار چودھری کو انصاف کی سربلندی اور انسانی حقوق کیلئے لڑتے اور کھڑا ہوتے نہیں دیکھا۔ ان کیلئے یہ بات حیران کن تھی جس بندے کی تمام عمر اپنا کیرئیر بنانے میں گزری وہ کیسے اچانک ایک ایسے فوجی آمر کے سامنے کھڑا ہوگیا، جس نے نہ صرف اسے چیف جسٹس بنایا بلکہ اس کے بیٹے کا کیریئر بنانے کی راہ بھی ہموار کی۔ ایسی باتیں کرتے ہوئے انہوں نے آخر میں یہ کہا کہ انہیں اس طرح کی کوئی ٹھوس اطلاع دستیاب نہیں کہ جس کی بنیاد پر وہ یہ کہہ سکیں کہ افتخار چودھری اپنے طور پر نہیں بلکہ کسی کے ایما پر مشرف کیخلاف کھڑا ہوا لیکن ان کے سابقہ تجربات ایسے رہے کہ انہوں نے جس کسی کو بھی اپنے ناقابل ستائش ماضی کے برعکس یو ٹرن لیکر باغی بنتے ہوئے دیکھا، اس کی بغاوت، عوام کے حقوق کیلئے نہیں بلکہ کسی زیادہ طاقتور کے ایما پر کسی کم طاقت رکھنے والے کی سرکوبی کیلئے کیا گیا ڈرامہ ثابت ہوتی رہی۔ افتخار چودھری کے متعلق یہ باتیں اس وقت سننے کو ملیں جس وقت جسٹس (ر) خلیل الرحمان رمدے کی قیادت میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اعتزاز احسن کے دلائل کو مانتے ہوئے انہیں چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ان باتوں نے افتخار چودھری کے متعلق مختلف زاویے سے سوچنے کی طرف مائل ضرور کیا لیکن کئی میڈیا ہائوسز، وکیلوں اور کچھ سیاستدانوں پر مشتمل کارٹل جسٹس چودھری کے حق میں اس قدر زور شور سے پراپیگنڈہ کر رہا تھا کہ سوچ کی سمت تبدیل ہونے کے باوجود ان کی بحالی کی تحریک میں حصہ لینے کیلئے ہر جمعرات کو لاہور ہائیکورٹ سے نکلنے والے جلوس میں شرکت کا سلسلہ جاری رہا۔
افتخار چودھری کی بحالی کے بعد، مشرف نے انہیں دوبارہ سبکدوش کر دیا، ان کی دوسری سبکدوشی تب ختم ہوئی جب اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وکیلوں کی تحریک کے دبائو میں آکر انہیں ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال کیا۔ دونوں مرتبہ چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہوکر افتخار چودھری نے قانون اور انصاف کی سربلندی کیلئے کچھ کرنے کی بجائے ملک میں جوڈیشل مارشل لاء جیسا ماحول پیدا کرکے خود سے وابستہ توقعات کو بری طرح ٹھیس پہنچائی۔ عجیب بات ہے کہ افتخار چودھری کے ہاتھوں اپنی توقعات کے چکنا چور ہونے کے بعد بھی لوگوں نے ججوں سے توقعات وابستہ کرنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔ افتخار چودھری کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان بھی قانون کے ارتقا میں سنگ میل ثابت ہونے والے فیصلے کرنے کی بجائے عدل کے ایوانوں میں سیاسی کھیل کھیلتے رہے۔ افتخار چودھری کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان میں سے اکثر نے جب ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈیم بنانے، نسلہ ٹاور گرانے اور بلیک ڈکشنری کے تحت سیاستدانوں کو نااہل کرنے جیسے مضحکہ خیز کام کئے تو مخصوص لابیاں انہیں ا پنے دائرہ اختیار سے باہر جانے کا احساس دلانے کی بجائے، مشکل کشا ثابت کرنے کی کوششیں کرتی رہیں۔
افتخار چودھری کے نقش قدم کو مٹانے اور نئے چیف جسٹس صاحبان کو ان کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کے اندر رکھنے کیلئے پارلیمنٹ نے کچھ ایسے قوانین بنائے جن کے کچھ حصوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مخصوص حلقوں کی طرف سے تنقید کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین پر تنقید کا حق کسی سے نہیں چھینا جاسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی نہیں مانا جاسکتا کہ جو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس کی تنسیخ کا حق کسی اور ادارے کو حاصل ہے۔ جن لوگوں کو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین پر تحفظات ہیں انہوں نے سابقہ ججوں سے توقعات وابستہ کرنے کے ناکام تجربات کی لمبی فہرست کے باوجود موجود ججوں میں کچھ چہرے تلاش کرکے ان سے نئی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔ جس طرح سابقہ ججوں سے وابستہ توقعات کا نتیجہ ان ججوں کی بڑھکوں کی شکل میں برآمد ہوتا رہا لگتا ہے نئے چہروں کی کارکردگی بھی بڑھکوں تک ہی محدود رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button