حکومت کا مستحسن فیصلہ، ری لوکیشن پلان منظور

تحریر : امتیاز عاصی
بالاآخر اس خاکسار کے ماضی میں لکھے گئے کالموں کا نتیجہ سامنے آنے کا وقت آگیا ہے۔ شہباز حکومت کا ناقد ہونے کے باوجود میں وزیراعظم شہباز شریف کے حال ہی میں راولپنڈی اسلام آباد میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے انخلا کے فیصلے کی ستائش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 1979میں افغانستان میں روسی جارحیت سے وطن عزیز نے افغان مہاجرین کی انصار مدینہ کی طرح جو میزبانی کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان میں چالیس سالہ قیام کے دوران افغانوں نے شناختی کارڈ بنوا لئے اور بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک بن گئے۔ عالمی دنیا میں پاکستان پہلا ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو ملک میں کہیں بھی رہنے کی آزادی تھی۔ پاکستان میں افغان شہری کئی کیٹگریوں میں مقیم ہیں۔ ایک وہ ہیں جن کے پاس اقوام متحدہ کے پی او کارڈ ہیں جب کہ دوسرے وہ ہیں جن کے پاس ریاست پاکستان کے قومی شناختی کارڈ ہیں اور تیسری کیٹگری ان افغانوں کی ہے جن کے پاس کوئی دستاویز نہیں، اس کے باوجود وہ یہاں غیرقانونی طور پر قیام کئے ہوئے ہیں۔ مملکت میں قیام کے دوران افغان پناہ گزنیوں کی اکثریت کئی جرائم میں ملوث ہے، قتل، ڈکیتی اور رہزانی کے واقعات ان کا مشغلہ ہیں۔ پنجاب کی جیلوں میں اکثریت افغان مہاجرین کی ہے جو کئی جرائم میں ملوث ہیں۔ راولپنڈی، فیصل آباد اور لاہور میں بم دھماکوں کے ملزموں کا تعلق
افغان مہاجرین سے تھا جو کئی سال جیلوں میں رہنے کے بعد رہا ہو چکے ہیں اور یہیں مقیم ہیں۔ ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے غیرقانونی مقیم افغانوں کی ملک بدری کیلئے ری لوکیشن پلان کی منظوری دیدی ہے جس کی نگرانی دو خفیہ ایجنسیوں کو سونپی گئی ہے۔ غیرقانونی اور بغیر کسی دستاویز کے رہنے والے افغان باشندوں کو شہر سے نکالنے اور ملک بدر کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ری لوکیشن پلان پر دو مرحلوں میں عمل کیا جائیگا۔ حکومت نے افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے بعد وطن عزیز میں کسی صورت واپس نہ آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس ضمن میں جائزہ رپورٹ روزانہ کی بنیادوں پر وزیراعظم شہباز شریف کو بھیجی جائیگی۔ ایسے افغان مہاجرین جو اے سی سی کارڈ ہولڈر ہیں انہیں بھی جڑواں شہروں سے دوسرے شہروں میں منتقل کیا جائیگا۔ وہ افغان مہاجرین جن کے پاس اقوام متحدہ کے پی او آر کارڈ ہیں یعنی پروف آف رجسٹریشن ہوگا انہیں دیگر افغان شہریوں سے الگ ڈیل کیا جائیگا کیونکہ پاکستان کی حکومت نے ایسے مہاجرین کو 30جون2025 تک قیام کی اجازت دے رکھی ہے۔ تاہم اس کے باوجود وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان پناہ گزینوں کو بھی راولپنڈی اسلام آباد سے دوسرے شہروں میں منتقل کیا جائے۔ افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد راولپنڈی اسلام آباد میں قیام کئے ہوئے ہے، جنہیں یہاں سے دوسرے ملکوں میں جانا ہے لیکن ایسے افغانوں کے بارے میں بھی ہدایت کی گئی ہے انہیں 31مارچ 2025تک شہر سے باہر منتقل کیا جائے۔ وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزارت خارجہ سے رابطہ رکھیں، وہ جن ملکوں میں جانے کے خواہاں ہیں چلے جائیں ورنہ انہیں افغانستان واپس بھیجا جائے۔ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس نے افغان پناہ گزینوں کو ملک کے تمام شہروں میں رہنے کی کھلی آزادی دے رکھی ہے۔ ہمسایہ ملک ایران میں پاکستان سے زیادہ افغان پناہ گزینوں نے قیام کیا تاہم کسی ایک کو بھی مہاجرین کیمپوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ایران نے مہاجرین کے کیمپوں سے انہیں افغانستان واپس بھیجا ہے۔ ایک ہمارا ملک جس کے پاس افغان پناہ گزینوں کے صحیح اعدادوشمار نہیں، حکومت پاکستان نے اربوں روپے لگا کر پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی اس کے باوجود انہیں پاکستان آمد پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہماری معاشی حالت خراب کرنے میں افغان پناہ گزینوں کا بڑا کردار ہے۔ ڈالر کی سمگلنگ ہو یا آٹا، چینی اور گھی ہو ہر غیرقانونی کام میں افغان پناہ گزین پوری طرح ملوث ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق راولپنڈی کے علاقے صادق آباد اور ضیاء مسجد، اقبال ٹائون اور سوان میں ان مہاجرین کی بڑی تعداد ہے جن میں اکثریت کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ ملکی ادارے مستعد ہوتے اور اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ غیرقانونی افغانوں کی بڑی تعداد یہاں قیام پذیر ہوتی۔ جڑواں شہروں میں ہوٹلز اور تندوروں کے مالکان کی اکثریت کا تعلق غیرقانونی افغانوں سے ہے۔ اس سے قبل حکومت کئی بار غیرقانونی مقیم افغانوں کیخلاف بھرپور آپریشن کر چکی ہے لیکن ابھی تک ان افغانوں کی بڑی تعداد راولپنڈی اسلام آباد میں قیام کئے ہوئے ہے۔ اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے کے قریب گلبرگ گرین کے فلیٹوں میں ایسے ہزاروں افغان شہری قیام کئے ہوئے ہیں جنہوں نے دوسرے ملکوں میں جانا ہے۔ درحقیقت یہ ہماری ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ گو بین الاقوامی قانون کی رو سے افغانستان ہماری Liabilityہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ افغانوں کو بالکل کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اب جبکہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہے، مہاجرین کی زندگیوں کو خطرات لاحق نہیں اس کے باوجود وہ یہیں مقیم ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک اپنے ہاں کسی غیرقانونی تارک وطن کو ایک روز قیام کی اجازت نہیں دیتا، بدقسمتی سے افغان پناہ گزیں گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے ہاں مقیم ہیں۔ آج مملکت میں دہشت گردی ہورہی ہے، اس کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ طالبان اور تحریک طالبان نے باہم مل کر امریکیوں کو وہاں سے نکال باہر کیا، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی والوں کو افغانستان سے نکال باہر نہ کریں۔ پاکستان سے وعدوں کے باوجود افغانستان کی طالبان حکومت دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ امریکہ نے جو اسلحہ چھوڑا آج وہی ہمارے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ درحقیقت افغانستان سے پاکستان کے تعلقات پہلے بھی کوئی اتنے دوستانہ نہیں تھے۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازع ابھی تک افغانستان نے کھڑا کر رکھا ہے، جو اس بات کا غماز ہے کہ افغانستان دوست نہیں ہمارا ناقد ہے، لہٰذا ایسے حالات میں اب وقت آگیا ہے کہ ایک ایک افغان پناہ گزین کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے۔