کشمیر ہمارے ہیں

بے نظیر بھٹو عالمی سطح کی لیڈر تھیں۔ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل تھیں۔ انگریزی زبان میں ان کا خطاب خاصے کی چیز ہوا کرتا تھا۔ اعلیٰ درجے کی سیاست دان تھیں۔ ذاتی طور پر ہرگز کرپٹ نہ تھیں۔ ان کی واحد غلطی شادی تھی، بے نظیر کی یہ غلطی قوم پر بڑی بھاری پڑی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ وہ زرداری کو سیاست سے الگ رکھنے کا فیصلہ کر چکی تھیں مگر زندگی نے وفا نہ کی اور وہ چل بسیں۔ بات ان کے خطاب کی ہو رہی تھی۔ ان کی اردو اچھی نہیں تھی۔ آخری عمر میں کچھ بہتر ہو گئی تھی۔
جب ان کو دوسری بار ہٹایا گیا تو میرے ایک دوست نے، جو اسے ناپسند نہیں کرتے تھے، ایک دن بڑی عجیب بات کی۔ کہنے لگے کہ اگر وہ نہ ہٹائی جاتیں تو کشمیر ہمارا ہو چکا ہوتا۔ ایک کشمیر کیا تین چار کشمیر ہمارے ہو چکے ہوتے۔ ہم نے حیرت سے پوچھا’’ تین چار کشمیر ، مگر کیسے ؟‘‘۔ کہنے لگے آپ نے ان کی تقریر شاید کبھی نہیں سنی۔ انہوں نے بارہا اپنے خطاب میں فرمایا ہے ’’ کشمیر ہمارے ہیں ۔۔ کشمیر ہمارے ہیں ‘‘، ہم اپنے والے کشمیر کو آزاد کشمیر کہتے ہیں۔ ادھر والے کو مقبوضہ کشمیر کہا کرتے ہیں۔ دنیا مگر ایسا نہیں سمجھتی۔ وہ اسے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور ادھر والے کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کہتی ہے۔ اور یہی سچ ہے۔ آزادی طرفین میں نہیں ہے۔ وہاں اگر کٹھ پُتلی حکومت ہوتی ہے تو یہاں بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ یہاں مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہو وہاں بھی اسی کی منظور نظر حکومت وجود میں آتی ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ ایک بار اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے بی بی صاحبہ نے کہا مقبوضہ کشمیر میں اسی ہزار کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ ان کے اس خطاب کی بڑی بڑی واہ واہ ہوئی تھی۔ لیکن یہ مسئلہ جون کا توں رہا۔
سنتے ہیں پاکستان بنتے ہی کشمیر کے محاذ پر دونوں ملکوں کی فوجیں لڑ پڑیں تھیں۔ پچھتر لاکھ نانک شاہی میں بکنے والے خطے کے غیور عوام کو یہ فیصلہ منظور نہ تھا۔ بھارت نے جب دیکھا کہ کھیل بگڑ رہا ہے تو وہ بھاگ کر اقوام متحدہ پہنچا اور ’’ ویلے کو ٹھیلا ‘‘ دیتے ہوئے اس کے جنگ بندی کی درخواست دی اور کہا کہ وہ وہاں کے عوام کو انتخاب کا حق دے گا۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کی فائل دب کر کھو چکی ہے۔ اس پر کوہ ہمالیہ رکھا ہے۔ اب اسے کون ہلائے کون ہٹائے۔ بھارت کو وقت چاہیے سو اس نے لے لیا اور پھر مکر گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا ، کشمیر پر اس کا قبضہ برقرار ہے۔ پرویز مشرف کے دور بارڈر پر دونوں ملکوں کی فوجیں کافی عرصہ تک آمنے سامنے رہیں۔ پھر اسی دور میں ہمارے حکمران نے کشمیر کے مسئلہ پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم ایسا فیصلہ کریں گے کہ ون ون سچویشن سامنے آئے گی۔ جب وہ صاحب بھارت کے دورے پر تھے تو سننے میں آیا کہ ایک ڈرافٹ لکھا جا رہا ہے۔ سارا دن انتظار ہوتا رہا۔ پھر پتہ چلا کہ ان کے پاس بال پوائنٹ نہیں اور قلم کا منہ بھی خشک ہے اور وہ روشنائی کا منتظر ہے جانے کب سے۔
ہمارے ملک میں جب جب کوئی حکومت آتی ہے تو وہ کشمیر کی آزادی کی بات کرتی ہے۔ جب وہ چلی جاتی ہے تو اس پر کشمیر کو بیچ دینے کا الزام لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے شاید کہ اب ہماری کوئی بھی حکومت بھولے سے بھی کشمیر کا نام نہیں لیتی۔ لگتا ہے اب یہ کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ خوامخواہ کا مسئلہ بنا رکھا تھا ان لوگوں نے۔ اب خیر ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب ہماری طرف راوی چین ہی چین لکھتا اور سکھ چین کی بانسری بجاتا پایا جاتا ہے۔
ہم فلسطین کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس کی وجہ سے بہت سے مسئلے ہیں۔ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ ہاں البتہ جن کا مسئلہ ہے وہ اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ فلسطین ہمارا مسئلہ ہے مگر کشمیر کسی کا مسئلہ نہیں ہے۔ آج تک ہم اس پر کسی کی حمایت حاصل نہیں کر سکے۔ ایک بھی اسلامی ملک ایسا نہیں ہے جس نے کشمیر کی وجہ سے بھارت سے قطع تعلق کیا ہو۔ کبھی کوئی دھمکی دی ہو یا آنکھیں دکھائی ہوں۔ اس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ امت مسلمہ کتنی بیدار اور خود دار ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کشمیر اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ بہتری اسی میں ہے کہ جو ملا ہے اس پر اکتفا کیا جائے۔ اس کی فکر کی جائے۔ اور شکر کیا جائے۔
سچ بتائیے کہ آپ کو کشمیر کوئی مسئلہ لگتا ہے ؟