لفظ ’’ سر ‘‘ کی لاج

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
الفاظ انسان کی عزت میں اضافہ بھی کرتے ہیں اور اس کے برعکس انسان کو مٹی بھی کر دیتے ہیں۔ جیسے ہمارے کلچر میں چودھری اس وقت چودھری سمجھ جاتا ہے جب تک وہ اپنے ساتھ رہنے والے کمزوروں کی ضروریات کا خیال رکھے، جس نے بھی اپنے ہی لوگوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا، اپنے پیٹ کا سوچا تو لوگوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔ لفظ چودھری بھی ایک عزت ہے، لیکن آج کل حالات کے ہاتھوں چودھری بھی مجبور ہیں۔ جناب ، صاحب، محترم اور سر جیسے القابات عزت کا باعث ہیں۔ لیکن مارکیٹ مشاہدے سی ثابت ہے کہ آج ان الفاظ کی قدر میں بھی کمی رونما ہوئی ہے۔ جو جتنا بڑا راشی، چور، ڈاکو ہے وہ خود کو زیادہ قابل احترام، عزت والا سمجھ رہا ہے۔ حقیقت میں ایماندار، شریف انسان ہی عزت دار ہے۔ سالوں پہلے شرافت خاندانوں کی پہچان تھی۔ بدلتے وقت کے ساتھ لوگ بھی طاقتور کو عزت دے رہے ہیں۔ ان کو دو وقت روٹی یا اپنی ضرورت پوری ہونے کی امید ہے، یقینا وہ ان الفاظ کو اپنی جھولی میں ڈالے کر کیش کراتے رہے ہیں۔ جو جتنی گندی زبان استعمال کرتا ہے وہ خود کو بڑا فنکار، سمجھ دار اور عزت والا سمجھتا ہے، لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان ہیں، یہ سب دو نمبری ادھر ہی رہ جانی ہے۔ اگر کچھ باقی رہنا ہے تو وہ اچھے اعمال ہیں، جو نجات کا ذریعہ ہیں۔ آج اداروں میں بیٹھے راشی افسر عوام کو لوٹ رہے ہیں اور کہتے ہیں ہم قابل عزت بھی ہیں اور ہمیں جی بھی کہیں۔ ہمیں سرکاری وقار، پروٹوکول بھی دیا جائے۔ اس وقت پورے ملک میں ایسے حالات ہیں جو کبھی مارشل لا دور میں ہوا کرتے تھے۔ زبان بندی کا قانون پاس کر دیا گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ خبر کا تصدیقی عمل کون کرے گا۔ سرکاری افسر فون اٹھنا پسند نہیں کرتے تو تصدیقی عمل کیسے پورا ہو گا۔ احتسابی ادارے اپنا کام نہیں کر رہے، تصدیق سے کون، کیسے اپنے خلاف محاذ چاہے گا۔ حکومت کیسے اپنے خلاف خبر کی تصدیق کرے گی۔ پیکا قانون سے سچائی پر ضرب لگی ہے۔ حکومت وقت کو ایسے قانون پاس کرنے سے باز رہنے چاہئے تھا۔ سرکاری گریڈ عزت کی علامت ہیں، ان افسروں کو ملک و قوم کا خیال نہیں، کیا ایسے نظام چلے گا، یقینا نہیں۔ آزادی اظہار کو دبا کر نظام نہیں چل سکتا۔ جن ممالک میں سخت قانون سازی ہے، وہاں کی حکومتیں عوامی سہولتوں کیلئے بھرپور اقدامات کرتی ہیں، وہاں بچے تعلیم سے محروم نہیں ہیں۔ صحت اور عدل ہے۔ انسانی حقوق مقدم ہیں۔ چور، ڈاکو اور وہاں سرکاری زمینوں پر قبضہ نہیں ہوتے۔ ملک ریاض کو ملک صاحب بنانے والے کون ہیں۔ پہلے ان کا احتساب کریں۔ سرکاری گریڈ اور سر، جناب محترم کہلانے والوں نے لٹیروں کا ساتھ دے کر ملک کو کمزور کیا ہے۔ اشفاق احمد صاحب لکھتے ہیں کہ لاہور میں اب جہاں واپڈا ہائوس ہے جب یہ بلڈنگ نہیں تھی تو ایک زمانہ میں اس جگہ ایک سپاہی کھڑا ہوتا تھا اور وہ ٹریفک کو کنٹرول کرتا تھا۔ اس کے ساتھ نیلی وردیوں والے خوب صورت آٹھ سات سکائوٹ کھڑے ہوتے تھے، ایک سکائوٹ نے سپاہی کو آ کے سیلوٹ کیا اور کہا کہ سر وہ موٹر سائیکل سوار سگنل توڑ گیا ہے۔ سپاہی نے کہا جانے دو۔ کوئی بات نہیں۔ پھر دوسرے سکائوٹ نے کہا کہ سرکاری والا سنگل توڑ گیا ہے۔ اس نے کہا جانے دو۔ اشفاق احمد کہتے ہیں میں وہاں کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے سپاہی سے کہا کہ تم بھلے چودھری ہو۔ سارے بندے چھوڑ رہے ہو اور یہ سکائوٹ تمہیں سیلوٹ مار رہے ہیں۔ وہ سپاہی کہنے لگا کہ یہ سارے ایچی سن کالج کے لڑکے ہیں۔ ان کے گھر والے ان کو گاڑیوں پر یہاں چھوڑ گئے ہیں۔ لعنت ہے ان تین دن میں کسی سے ایک روپیہ رشوت کا لے سکا ہوں۔ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ اس وجہ سے کہ سارے آپ کے سر پر کھڑے ہیں ۔ آپ پیسے لیں، بھلا آپ کو روکتے ہیں۔ وہ سپاہی کہنے لگا کہ نہیں سر اس وجہ سے نہیں کہ یہ میرے سر پر کھڑے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ یہ آ کر مجھے سیلوٹ کرتے اور ’’ سر ‘‘ کہتے ہیں۔ سپاہی کہنے لگا اگر میں ایک پیسہ بھی لوں تو میں لعنتی ہوں، کیوں کہ ان کا سیلوٹ مجھے ایک معزز شخص بنا دیتا ہے اور معزز آدمی کبھی رشوت نہیں لیتا۔ سپاہی کہنے لگا میری بیوی رشوت کے پیسے نہ لانے کے باعث ناراض ہے۔ سپاہی کہنے لگا کہ میں سوکھی روٹی کھائوں گا اور جب تک یہ مجھے سر کہتے ہیں اور سیلوٹ کرتے ہیں میں رشوت نہیں لوں گا‘‘۔
حالات نے فرد کو اس سوچ پر لا کھڑا کیا ہے کہ میں، میری فیملی کے علاوہ کچھ نہیں، معاشرہ میں بے راہ راوی میں اضافہ ہے، احترام، عزت کوئی معانی نہیں رکھتا۔ دولت کی تفریق نے معاشرے میں بد امنی کی آبکاری کی ہے۔ یہ سلسلہ خطرناک صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قانون کی سختی سے زیادہ اس وقت معاشی اصطلاحات کی ضرورت ہے ، بروقت انصاف اور روزگار ہی عزت واپس لا سکتا ہے۔