ColumnRoshan Lal

کیسے ادارے کہاں کا تقدس؟

تحریر : روشن لعل
وطن عزیز میں اکثر اداروں کے تقدس کی دہائی دی جاتی ہے۔ کہا جاتاہے کہ اداروں کی تضحیک کسی صورت برداشت نہیں کی جائیگی۔ اداروں کے اختیارات کے ساتھ ان کے استحکام کی باتیں بھی سننے میں آتی رہتی ہیں۔ اداروں کے تقدس اور احترام پر زور دینے والی نمایاں آوازوں کے درمیاں کہیں کہیں یہ بات بھی سنائی دے جاتی ہے کہ بالا دست لوگوں نے اداروں کے نام پر وڈیروں اور چودھریوں کے ایسے ڈیرے بنا رکھے ہیں جہاں یا تو خو د انہیں یا ان کے چمچوں کو بولنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اداروں کے احترام کی باتیں وہاں کی جارہی ہیں جہاں انجمن فلاح ارائیاں، جٹ فیڈریشن، کشمیری ایسوسی ایشن ، انجمن بہبود راجپوتاں اور گجر سنگت جیسی تنظیموں کو بھی ادارے قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں اداروں اور تنظیموں کو بری طرح گڈ مڈ کر کے تقدیس کے نام پر جو کھیل کھیلا جاتاہے اس سے عام آدمی سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اسے با ادب بنا نے کی کوشش کی جارہی ہے یا بیوقوف سمجھا جارہاہے۔
کوئی ادارہ محترم کیوں ہوتا ہے ، یہ بات اس وقت تک نہیں سمجھی جاسکتی جب تک یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اصل میں ادارہ کہتے کسے ہیں۔ عام مفہوم میں ادارے سے جو بھی مراد لی جاتی ہے، خاص معنوں میں کوئی ادارہ ہر لحاظ سے اپنے خدو خال، ہیئت، کردار اور معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کی وجہ سے کسی بھی تنظیم سے مختلف حیثیت کا حامل ہو تا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ یہاں کوئی تنظیم چاہے جس بھی مقصد کے تحت قائم کی گئی ہو اس کے کردار کا تفصیلی جائزہ لیے بغیر اسے ادارہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ یہاں کسی تفریق کے بغیر ہر تنظیم کو یہ کہہ کر ادارے کا نام دے دیا جاتا ہے کہ اس کے قیام کا مقصد مفاد عامہ ہے۔ یاد رہے کہ ادارہ کسی عمارت یا لوگوں کے گروہ کا نام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عمارت اور افراد کے مجموعے سے بننے والی کسی تنظیم کو ادارے کا نام دیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر یہاں کسی بھی تنظیم کے افراد سے تعلق کو ادارے کا نام دے دیا جاتا ہے مگر کسی ادارے کی یہ شناخت ہرگز مکمل تصور نہیں کی جاسکتی۔ اصل میں کوئی بھی ادارہ معاشرے کے تمام تر اجزا اور کسی تنظیم کی باہمی وابستگی اور باہمی اعتماد کا رشتہ قائم ہونے کے بعد ہی وجود میں آسکتا ہے۔ کسی ادارے کا کام صرف ہدف مقرر کرنا نہیں بلکہ طے شدہ نظام کی مقرر کردہ حدود کا احترام کرتے ہوئے اہداف حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔ کسی ادارے کا احترام اس نظام کی حرمت سے زیادہ نہیں ہو سکتا جس کے تحت اسے قائم کیا گیا ہو۔ اداروں کے کردار کا تعلق ایسے افعال سے ہوتا ہے جو معاشرے کے کسی ایک جز کے لیے نہیں بلکہ تمام تر سماج کے لیے اہمیت اور یکساں قدروقیمت کے حامل ہوں۔ ادارے ایسی روایتوں اور لوک ریتوں کو اپنے اندر سمو کر وجود میں آتے ہیں جو مسلسل انسانی عادات و اطوار کا حصہ بنے رہنے کے بعد معاشرتی اقدار کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔
ادارے اور تنظیم کا فرق یہ بھی ہے کہ تنظیمیں لوگوں کو اپنا رکن بناتی ہیں جبکہ اداروں کے لوگ پیروکار بنتے ہیں۔ کسی بھی تنظیم کا کردار اس سے وابستہ لوگوں کے رویوں کے تابع ہوتا ہے مگر اداروں کا کردار ایسے نظام کا عکاس ہوتا ہے جو لوگوں کے رویوں کی اصلاح کے لیے رہنمائی فراہم کرے۔ کوئی بھی ادارہ ایک ایسا ڈھانچہ ہوتا ہے جو براہ راست سماج سے متعلق ہوتا ہے۔ ادارے سماج کے اندر سے نمو پانے کے بعد سماجی زندگی کو مسلسل استوار کرتے رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر ادارے عوام کو کارآمد افعال کے لیے تیار کرنے کے بعد ان کے منظم خیالات اور قابل تقلید اعمال سے مستفید ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اداروں کو انتہائی کارآمد افراد کے ذاتی کردار پر بھی کسی نہ کسی حد تک انحصار کرنا پڑ سکتا ہے مگر اس طرح کے حالات میں بھی کسی ایسے فرد واحد کے سامنے ادارے کی حیثیت کبھی خفیف نہیں ہو سکتی۔
اداروں کی قدر و اہمیت ، افادیت اور کار گزاری کو آسانی سے سمجھنے کے لیے تنظیم اور ادارے کے فرق کی مزید وضاحت ضروری ہے۔ اس فرق کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ کسی کاروبار کا آغاز کرنے والی کارپوریشن اس وقت تک ایک تنظیم ہی رہتی ہے جب تک عوام اسے قابل بھروسہ تصور کرتے ہوئے بے دھڑک اس کے ساتھ کاروباری لین دین کا سلسلہ شروع نہ کر دیں ۔ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی تب ہی تنظیم سے ادارہ بنے گی جب عوام اس اعتماد کے ساتھ اسے اپنی آمدورفت اور سامان کی نقل و حمل کا ذریعہ بنائیں گے کہ اس کی سروس ہر لحاظ سے تحفظ، وقت کی پابندی اور قابل جواز کرائے کے عوض فراہم کی جارہی ہے۔ اسی طرح امتحانوں کے عوض ڈگریاں بانٹنے والی کوئی یونیورسٹی محض تنظیم ہی سمجھی جائے گی مگر جامعہ تحقیق سے مزین علم فراہم کرنے کا عمل اسے ادارے کی پہچان دے دیگا۔ منافع کے حصول کے لیے کاروباری سرگرمی کے طور پر شروع کیا گیا کوئی اخبار اس وقت تنظیم سے ادارہ بنے گا جب اس کی اشاعتوں کو صحافتی اقدار کے عین مطابق تعصب، تفریق اور ہر قسم کی جانبداری سے پاک تصور کیا جائیگا۔ بڑے بڑے ناموں والے ڈاکٹروں اور بھاری فیس وصول کرنے والے کسی ہسپتال سے کسی خاص طبقے کے لوگ جس قدر بھی مستفید ہوتے ہوں ، اسطرح کے ہسپتال کو تنظیم ہی تصور کیا جاتا رہے گا۔ ادارہ وہ ہسپتال ہو گا جس میں عام مریضوں کے شفایاب ہونے کی تعداد اور شرح زیادہ سے زیادہ ہو گی۔ ادارے اور تنظیم کے فرق کی بات چل نکلی ہی تو یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ کسی بھی ملک کی فوج کو کاروبار، تجارت، بینکاری یا پھر امدادی سرگرمیوں جیسے عظیم کاموں میں اعلیٰ کارکردگی کے باوجود بھی ادارہ تصور نہیں کیا جاسکے گا۔ فوج کو ادارہ تصور کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی جواز ہے کہ ملک کے دفاع میں لڑی گئی سابقہ جنگوں میں اس کی کارکردگی کیسی رہی اور آئندہ جنگ لڑنے کی اس کی موجودہ صلاحیت کیا ہے۔
ادارے اور تنظیم کے فرق کے تفصیلی بیان کے بعد یہاں موجود ایک ایسے حقیقی ادارے کی جیتی جاگتی مثال پیش کی جا رہی ہے جو پاکستان کے منظر نامے میں بہت مشکل سے نظر آیا ہے۔ یہ ادارہ ریسکیو 1122ہے۔ اس ادارے پر سماج کے ہر جز کا اس تک یقین اور اعتماد ہے کہ اسے قائم کرنے والے کے نام پر دھیان دیئے بغیر کسی بھی آفت میں ہر فرد غیر متزلزل بھروسے کے ساتھ اس پر انحصار کرتا ہے کہ ایک ٹیلی فون کال پر اس کی امداد نہ صرف چند منٹوں میں یقینی طور پر طلب گار تک پہنچ جائے گی بلکہ مزید امداد کے لیے کسی زخمی یا مریض کو جہاں بھی پہنچانا ہوگا پہنچا دیا جائے گا۔ ادارے ، ریسکیو 1122کی طرح کے ہوتے ہیں جو کسی خاص صوبے، مذہب، قومیت یا حکومت کے نہیں بلکہ سماج کے ہر جزو کے لیے یکساں کردار اور رویے کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے اداروں کا احترام بھی ہونا چاہیے اور انہیں زیادہ سے زیادہ مستحکم بھی بنایا جانا چاہیے مگر ان کی ہر خوبی کے باوجود بھی انہیں مقدس ہر گز تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button