سیاست میں چیلوں کا کردار

تجمل حسین ہاشمی
ایک صاحب اسلام آباد سے کراچی پوسٹنگ پر آئے ، ان سے تفصیلی ملاقات گزشتہ رات ہوئی، کہنے لگے بھائی اسلام آباد اور کراچی کی طرز زندگی میں بڑا فرق ہے۔ میں نے پوچھا کیسے ؟، کہنے لگے بھائی یہاں پر دو چیزیں میں نے بہت محسوس کی ہیں، ایک یہاں جب بھی گھر سے باہر نکلو تو مانگنے والے جان نہیں چھوڑتے، یہاں بھکاری بہت زیادہ ہیں ، دوسرا یہاں سسٹم کا نام بہت گردش میں رہتا ہے۔ سسٹم سے متعلق عدالتوں نے بھی پوچھا تھا یہ سسٹم کیا ہے ؟، اس بات سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں۔ کوئی شک نہیں کراچی میں ہر چوتھا بندہ اپنے کام میں آسانی کیلئے کسی طاقتور، یا سسٹم کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ عام شہری ایسے افراد کو اپنی زندگی کی جمع پونجی دے بیٹھتے ہیں اور پھر دفتروں کے دھکے کھاتے ہیں۔ ملک ریاض ملک کی طاقتور ترین شخصیت ہے، اس کو طاقتور کس نے بنایا۔ وہ اس مقام تک کیسے پہنچا ؟، اس کی تفصیل کافی لمبی ہے اور تمام اداروں اور طاقتور حلقوں کو پتہ ہے کہ ملک ریاض یہاں تک کیسے پہنچا۔ وہ خود بھی کھلے عام اعتراف کر چکا ہے۔ اتنے سالوں سے کسی ادارے کو ہمت نہیں ہوئی کہ اس کو روکا جائے۔ وہ گاڑیوں کو پہیے لگتا رہا اور حکمران،
بیوروکریٹ، صحافی، جنرل اپنے مفادات لیتے رہے۔ غریب کیلئے لنگر خانہ اور طاقتوروں کو محل ملتے رہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار، ملک ریاض کے حوالے کھل کر باتیں کر چکے ہیں، آج جب وہ کما، کھا چکا ہے تو پھر حکومتی اداروں کی طرف اعلان کئے جا رہے ہیں ۔ 77سال گزارنے کے بعد بھی ملکی نظام پر ہزاروں سوال ہیں۔ دنیا بھر نے اپنی ریاستوں کو مضبوط کیا لیکن ہمارے ہاں آج بھی نعروں سے کام چلایا جا رہا ہے۔ بروقت عدل، معیشت کی بحالی کیلئے لازم ہے، لیکن عدل دینے والے چپ رہے۔ رائو رشید اپنی کتاب ’’ جو میں نے دیکھا ‘‘ میں لکھا ہے، رائو صاحب کی نوکری زیادہ وقت انٹیلیجنس اور بھٹو فیملی کے ساتھ گزری ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے پرائم منسٹر ہائوس آتے ہی انٹیلیجنس بیورو کا چارج میاں انور علی کو دیا اور اس کے ساتھ ہی سعید احمد خان کو بھی پرائم منسٹر ہائوس میں لگا دیا ۔ اس بات کا ہمیں بڑا تعجب ہوا کیوں کہ سعید احمد خان کا کردار اچھا نہیں تھا۔ سعید احمد خان نے خود کو پھنے خان سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
سارے محکمے خاص کر پولیس اور انٹیلیجنس بیورو انہیں رپورٹ کیا کریں گے۔ اس عمل کو روکنے کی میاں انور علی نے کوشش کی، کیوں کہ حساس ریکارڈ باہر والا بندہ نہ منگوائے تو بہتر ہے۔ پتہ نہیں یہ کون بندہ ہے ؟، انہوں نے لکھ دیا جس پر بھٹو صاحب ناراض ہوئے اور کہا اس کو میں نے اپنا سیکیورٹی افسر لگایا ہے، سب اس کو پتہ ہونا چاہئے کہ یہ جو ریکارڈ مانگتا ہے اس کو مہیا ہونا چاہئے۔ سب کو پتہ چل گیا کہ سعید احمد خان بھٹو صاحب کا خاص آدمی ہے۔ بہرحال دنیا نے دیکھ لیا کہ اس قسم کے آدمی کو ساتھ رکھنے، قربت دینے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس کی سزا بھگتنا پڑی۔ رائو رشید لکھتے ہیں کہ میں ایس پی ای میں گیا تو میرے سے پہلے فضل چودھری صاحب تھے، انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ دیکھو میاں تم یہاں آگئے ہو لیکن سعید احمد خان سے اچھے مراسم رکھنا، پھر کوئی فکر کی بات نہیں۔ میں نے ان کا مشورہ سن لیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ سارا دن سعید احمد خان کے ساتھ پرائم منسٹر ہائوس میں بیٹھے رہتے تھے۔ سعید خان حکم دیتے تھے اس کو پکڑو، اس کی انکوائری ہے۔ اس کو چھوڑ دو۔ سعید خان ایک چھوٹا سا نوٹ لکھ کر بھٹو صاحب کو بھیج دیتے تھے کہ فلاں فلاں آدمی آپ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، اس کے خلاف ہمیں کچھ کرنا چاہئے، اگر بھٹو صاحب نے یس یا دستخط کر دئیے تو سعید احمد خان فون اٹھا کر ایس پی ای یا کسی آئی جی کو حکم دیتا تھا کہ فلاں آدمی کے خلاف شکایت ہے، اس کے خلاف کارروائی شروع کی جائے۔ جب آدمی کو پتہ چلتا تھا کہ کس نے شکایت کی ہے تو وہ سعید احمد خان سے رابطہ کرتا۔ سعید خان پہلے سے سودے بازی کیلئے تیار بیٹھا ہوتا تھا۔ اتنا دے دو، آپ کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ یہ سعید احمد خان کا طریقہ واردات ہوتا تھا۔ ( صفحہ نمبر 104، 105)، یقینا سعید احمد خان نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ، بھٹو صاحب اس کے عمل سے سخت ناراض ہوئے۔ ان کو اس کی کارروائیوں کا کوئی علم نہیں تھا۔
ملک کو نقصان سیاسی شخصیات سے زیادہ ان کے چیلوں نے دیا ہے، جن کے پاس سرکاری اختیارات تھے، انہوں نے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ آج ملکی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ قانون بنا لینا اتنا اہم نہیں، جتنی اس کی عمل داری اہم ہے، درجنوں قانون موجود ہیں، جن کا استعمال نہیں ہوتا اور حکومت نے ان قوانین کو اپنے سیاسی مخالفین کیلئے استعمال کیا ہے۔ ہمارے ہاں محب وطنی کے نعرے اور جھوٹے بیانے عام ہیں۔ عام یا خاص کوئی بھی شخص ریڈ سنگل پر روکنا پسند نہیں کرتا۔ ایسا طرز زندگی رکھنے والے ترقی پذیر کیسے بہتر مستقبل دے سکیں گے جو پروٹوکول کے مزے لے رہے ہیں۔ کچھ بھی کر لیں ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انصاف، تعلیم بروقت ہر فرد میسر نہیں ہو گی۔ لیڈر تو لیڈر ہوتا ہے، نظام تو بیوروکریسی چلاتی ہے، سیاست دان تو انہی کے محتاج ہیں۔ کوئی سچ حق بولنے کیلئے تیار نہیں، کوئی قانون کی پاسداری کیلئے تیار نہیں، تو سرمایہ کاری کیسے آئے گی۔ دنیا بھر میں جمہوری نظام ہے، جہاں کوئی تفریق نہیں، جہاں بے روزگار حکومت کے ذمہ ہیں۔ تعلیمی اخراجات حکومتی ذمہ ہیں۔ انسان تو کیا جانوروں کو بھی تحفظ ہے۔