دنیا کا حسین سیاسی قیدی

تجمل حسین ہاشمی
اڈیالہ جیل کے قیدی عمران خان کے چاہنے والوں کا کبھی رومانس ختم نہیں ہوگا، ویسے کالم نگار و اینکر رئوف کلاسرا صاحب کہتے ہیں کہ ’’خان کا رومانس ختم کرنے کیلئے اسے حکومت میں رہنے دینا چاہئے تھا یا دوبارہ حکومت بنانے دینی چاہئے تھی۔‘‘ ہمارے ہاں کی سیاست میں ایسا رومانس پہلے بہت کم نظر آیا ہے، دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم دو بار جلاوطن رہے، قدم بڑھائو نوازشریف کے نعرے لگے لیکن پیچھے کوئی نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والے بھی دیوانے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی لیکن تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں۔ بھٹو بھی راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ جیل کا قیدی تھا، اس جیل میں اب دنیا کا رومانس قید ہے، اڈیالہ تو جگہ کا نام ہے، حقیقت میں تو راولپنڈی جیل تھی جو بھٹو کی پھانسی کے بعد اگلے سالوں میں وہاں سے شفٹ کردی گئی اور یہاں پر اب پارک ہے۔ اڈیالہ جیل کا نام پاکستانی سیاست میں بہت بار گونجتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک روکے گا، کسی کو کوئی خبر نہیں، عوام کیلئے کون، کیا بہتر ہے کوئی پتہ نہیں۔ اس قید خانہ میں کئی نامور سیاست دان، وزرائے اعظم قید رہے۔ جمہوری سوچ کے حامل جاوید ہاشمی، خواجہ سعد رفیق، یوسف رضا گیلانی اور مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری بھی اڈیالہ میں رہ چکے ہیں۔ چوتھا سابقہ وزیراعظم بھی اسی جیل میں قید ہے، جس کو عدالت کی طرف سے 14سال قید سنائی جاچکی ہے۔ یہ تاریخ کے چوتھے سابقہ وزیراعظم ہیں جو اب اس جیل میں قید کاٹیں گے۔ پاکستانی سیاست میں زیادہ عرصہ حکمران رہنے والے میاں نوازشریف اس جیل میں دو مرتبہ قید میں رکھے گئے لیکن انہوں نے اپنی رہائی کیلئے ہر بار سرنگ کھودی اور وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ آخری بار تو حیران کن کامیابی حاصل ہوئی، پی ٹی آئی کی حکومت میں شیری مزاری ان کی بیماری کو لے کر اسمبلی فلور پر آبدیدہ ہوگئی تھیں۔ ہمارے ہاں سیاست دانوں کو
صحت کے کافی مسائل ہیں، جن کا علاج باہر ممالک میں ہی ممکن ہے۔ ایک سابقہ سپیکر خاتون نے اپنے لئے تاحیات میڈیکل سہولت منظور کی ہوئی ہے۔ ویسے ہمارے ہاں گھر بھی جیل بن جاتی ہے لیکن تین جیلیں کافی اہم ہیں جن میں سے ایک کا نام اڈیالہ ہے، جس کا ہر شہری کو معلوم پڑ چکا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے فارم 45 اور فارم 47 کا بچے بچے کو معلوم ہو چکا ہے۔ عمران خان کو اپنی رہائی کیلئے مزید سرنگ کی کھدائی جاری رکھنی پڑے گی، ویسے آکسفورڈ کے چانسلر کے الیکشن کا نہ پاکستانیوں اور نہ زیادہ تر برطانیہ والوں کو پتہ تھا، آج چانسلر کے الیکشن کا دنیا بھر میں چرچا ہورہا ہے۔ یہ سرنگ بھی خان کے کام نہ آ سکی۔ حالیہ 190ملین پائونڈ کے عدالتی فیصلے کے بعد مزید کتنا وقت لگے گا، یہ اگلے چند ہفتوں میں واضح ہو جائیگا۔ حکومت اور اس کے اتحادی عدالتی فیصلے کو لیکر کافی خوش گوار موڈ میں ہیں
لیکن فیصل واوڈا نے حکومت کیلئے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ حسین قیدی قید میں رہنا چاہتا ہے، ویسے اڈیالہ میں معروف ماڈل ایان علی بھی قید میں رہ چکی ہیں، ایان علی کی سرنگ کی مٹی بری نرم تھی۔ ایک بڑے سیاست دان اس کی قید کو لیکر کافی پریشان رہے۔ ویسے جیل سے جلدی فرار اور سستے انصاف کا سب سے زیادہ تجربہ میاں نوازشریف رکھتے ہیں، اٹک قلعہ، کوٹ لکھپت اور پھر اڈیالہ جیل سے فرار صرف 50روپے کے اسٹمپ پیپر پر چند دن کی رہائی پر 5سال تک صحت یابی نصیب رہی اور
عدالتیں فیصلے سناتی رہیں لیکن ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ ہمارے ہاں جو بھی سیاست دان جیل سے فرار چاہتا ہے، اس کو براستہ راولپنڈی سفر کرنا پڑتا ہے لیکن بانی پی ٹی آئی اپنا راستہ خود بنانے پر مصر ہیں۔ بانی خان دنیا بھر کی نظر میں حسین قیدی رہنا چاہتا ہے، جیل کی سختی برداشت کرکے اس شرمندگی سے بچنا چاہتا ہے جو پہلے سے کئی سیاست دانوں کے حصہ میں لکھی جاچکی ہے۔ رہائی کے معاہدوں کا قوم کے سامنے انکار، لیڈروں کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اڈیالہ کا حسین قیدی اس گم نامی سے دور رہنا چاہتا ہے۔ اڈیالہ کے قیدی کی سیاست سے لاکھ اختلاف سہی لیکن اس کے جذبے سے سیاسی مخالف بھی تنگ آچکے ہیں جو کبھی کہتے تھے کہ جیل میں ایک دن نہیں گزار سکے گا، اس کو چھپکلی سے ڈر لگتا ہے اور کئی الزامات عائد کئے جاتے تھے لیکن سچ میں اس نے سیاسی مخالفوں کو تھکا دیا ہے، یقیناً اس کی خاندانی سیاست نہیں اور بیرونی ڈپازٹ نہیں، والد بھی ہے لیکن اپنے دور حکومت میں کبھی بچوں کے پاس نہیں گیا۔ کوئی عید ساتھ نہیں گزاری، یہ بھی سچ ہے کہ اربوں ڈالر کا کوئی کاروباری مفاد نہیں، بس کمی رہی تو اس معاشی ٹیم کی جس نے ملک چلانا تھا، گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے بڑے بھائی کو تحریک انصاف کے ساتھ ہونیوالے مذاکرات پر بریف کیا، نوازشریف نے ملک کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس فیصلے کو سراہا۔ ’’خان کا جادو اپنی جگہ لیکن 9مئی کے واقعات بھی کسی صورت قبول نہیں۔ ریاستی اداروں پر حملہ کسی صورت منظور نہیں لیکن تحریک انصاف اس مسئلہ پر کمیشن بناکر حقیقت سامنے لانے کی بات کرتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ تلافی خان اس کے مریدوں پر لازم ہے۔