جمہوریت میں کمزور سیاسی جماعتیں

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
حکومت ہند سے آزادی ہمارا نظریہ تھا لیکن اس کے ساتھ ہندوستان کو بھی آزادی چاہئے تھی، ہمیں 14اگست اور اسے15اگست کو آزادی نصیب ہوئی۔ 12جنوری 1948کی بات ہے جب گاندھی نے دلی میں مسلمانوں کے قتل عام اور پاکستان کو اثاثہ جات کے واجبات کی ادائیگی میں لیت و لعل کیخلاف (مرن برت) رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کو اثاثہ جات کی ادائیگی کے معاملہ پر دسمبر 1948میں ہونیوالے معاہدے کی تفصیل میں جانا ضروری تھا۔ اندرا گاندھی کا مقف اور اس کا یہ (مرن برت) )بھوک ہڑتال اتنا اہم تھی کہ اس کی قیمت گاندھی کو اپنی جان کی صورت میں چکانی پڑی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ انڈیا کے درمیان لڑائی کا جو باعث بنا وہ اثاثہ جات کی تقسیم بھی تھی۔ لکھاری زاہد چودھری نے اپنی کتاب ’’پاک بھارت تنازع اور مسئلہ کشمیر کا آغاز‘‘ میں لکھا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں کی کرنسی 31مارچ 1948تک مشترکہ رہے گی۔ اس کے بعد پاکستان چھ مہینے کے اندر ہندوستانی کرنسی کی جگہ اپنی کرنسی رائج کر دے گا ، گویا 30 ستمبر 1948 تک پاکستان میں ہندوستانی کرنسی چلتی رہے گی۔ جب یہ فیصلہ ہوا تھا تو اس وقت حکومت ہند کے پاس تقریباً چار ارب روپے کی رقم موجود تھی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان کے نمائندوں کا مطالبہ یہ تھا کہ انہیں ان کے ملک کی آبادی، رقبے اور دوسرے ذرائع کا لحاظ سے 4ارب کا پچیس فیصد حصہ دیا جائے لیکن انڈین رہنما سردار پٹیل نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور 20کروڑ روپے کی فوری ادائیگی پر آمادگی ظاہر کی۔ حکومت پاکستان نے مطلوبہ رقم کی ادائیگی کا تنازع ثالثی ٹربیونل کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔9دسمبر 1947کو اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے دہلی میں ایک اعلیٰ سطح کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد نے اور انڈین وفد کی قیادت وزیر داخلہ سردار پٹیل نے کی تھی۔ کانفرنس کے اختتام پر فیصلہ ہوا کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان کے پاس جو چار ارب روپے تھے ان میں سے پاکستان کو 17.33 فیصد حصہ یعنی 75 کروڑ روپے ملیں گے۔ ان 75کروڑ روپیوں میں سے 20کروڑ پاکستان کو پہلے ہی دیئے جا چکے تھے۔ اب یہ طے ہوا کہ پاکستان کو بقیہ 55کروڑ روپے کی رقم فوراً ادا کر دی جائے کیونکہ پاکستان میں سرکاری اخراجات کیلئے کوئی پیسہ نہیں تھ معاہدے میں یہ بھی طے ہوا کہ دونوں آزاد ممالک اپنے اپنے علاقوں میں پنشنز ( ریٹائرڈ سرکاری ملازمیں کو ماہانہ بنیادوں پر ملنے والی رقم (کی ادائیگی جاری رکھیں، انڈیا غیر ممالک میں مقیم باشندوں کی پنشنز تیار کرے گا۔ پنشنز کا تناسب دونوں نوآبادیات کریں گی ۔ فوجی سٹورز میں پاکستان کا حصہ انڈیا کے موجودہ سٹاک کا ایک تہائی ہو گا۔ آرڈیننس فیکٹریوں کی مادی تقسیم نہیں ہو گی۔ پاکستان میں آرڈیننس فیکٹریوں کے قیام کیلئے انڈیا اسے چھ کروڑ روپے دے گا۔ یہ بھی طے پایا کہ پاکستان کو سکیورٹی پرنٹنگ پریس قائم کرنے میں بھی انڈیا مدد دے گا۔ اعلان کے آخر میں کہا گیا کہ انڈیا اور پاکستان موجودہ سمجھوتے پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں، لیکن معاہدے پر دستخط کے باوجود کئی دن تک کوئی ادائیگی نہ ہوئی۔12 جنوری کو 55 کروڑ دینے کا معاہدہ ہوا ، سردار پٹیل جو اس وقت کا وزیر داخلہ تھا وہ اپنی چلوں سے باز نہیں ا رہا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن بھی سردار پیٹل سے خوش نہیں تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن چاہتا تھا کہ پاکستان کو اس کے حصہ کا معاہدے کے مطابق رقم دی جائے لیکن پٹیل اس بات کیلئے راضی نہیں تھا اندرا گاندھی جی کے قتل کے ساتھ ہی انڈیا میں پاکستان کے حقوق کی آواز بھی بند
ہوگی، آج 77سال بعد بھی وہاں مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہے ہیں ۔ مودی حکومت نے اقلیتوں پر ظلم کی انتہائی کر دی ہے ۔ دنیا اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ مودی حکومت میں فاشٹزم میں اضافہ ہوا ہے ۔ آج سنہ 2025 میں کھڑے ہیں ، ذرا سوچیں کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے پاس کیا تھا لیکن اس کے با وجود ایسے منصوبے پایا تکمیل تک پہنچے جن کا دنیا بھر میں نام رہا . آج ان منصوبوں کو فروخت کیا جارہا ہیں جن کو بنانے میں اس وقت کی قیادت کے پاس وسائل کی کمی تھی لیکن پھر بھی انہوں ان منصوبوں کو کھڑا کیا ۔ کیسے ان منصوبوں کو برباد کیا گیا جن کو چلانا اب مشکل سمجھا جا رہا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے پاس وسائل کی کمی تھی لیکن پھر بھی بے مشال ادارے قائم ہوے ۔ آج ہمارے ہاں ماضی سے زیادہ بہتر وسائل ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت کے ہاتھ پاں ٹھنڈے ہو چکے ہیں ، ہم طبقوں میں تقسیم ہیں ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ کو عسکری اداروں پر تنقید پر لگا دیا گیا ہے ، سیاسی جماعتیں بھی اس تنقید میں پیچھے نہیں ہیں ، وہ بھی اپنا غصہ اسٹیبلشمنٹ پر نکالتی ہیں ملکی معیشت کو چلانا جموری حکومتوں کا کام ہے ۔ معیشت کا حال سب کے سامنے ہے ، عسکری اداروں کی محنت سے آج دنیا بھر میں ہم دفاعی حوالے سے مضبوط ہیں ، عسکری اداروں پر بے جا تنقید کا کوئی جواز نہیں بچتا۔ روزانہ کی بنیاد پر فوجی اور سویلین کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے لیکن قوم کے حوصلے بلند ہیں۔ دشمن کی سوچ کا سہولت کار نہیں ہونا چاہئے۔ الزامات عائد کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ ہمیں غدار، غیر ملکی ایجنٹ جیسے بیانیے کو ختم کرنا ہوگا۔ اس طرح کے بیانیے ملکی مفاد کیلئے بہتر نہیں۔سیاست دانوں کو تنقیدی بیانیوں کو چھوڑنا ہوگا ورنہ نیلامی کا پھیلائو مزید بڑھتا چلا جائیگا جوکہ ملکی سلامتی کیلئے اچھا نہیں ہے ۔