CM RizwanColumn

ایف بی آر افسران کو چھ ارب کی گاڑیاں؟

تحریر : سی ایم رضوان
گزشتہ روز معروف تاجر رہنما ملک خالد کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر کثیر تعداد میں تاجر رہنماں اور کاروباری شخصیات نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ راقم الحروف بھی اس موقع پر تعزیت کے لئے موجود تھا۔ نماز جنازہ اور تعزیت سے فراغت کے بعد کچھ تاجر رہنماں سے ملکی معاشی صورتحال پر گفتگو کا بھی سلسلہ رہا۔ جس میں اس امر پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ شہباز سپیڈ جب وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے جولائی 2024میں ایف بی آر کے گریڈ 20کے 27 افسران کو عہدوں سے فارغ کر دیا تھا اور ساتھ ہی ایف بی آر کے کرپٹ اور نااہل افسران کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ اقدام ان کی حکومت کے پہلے وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ان افسران کو عہدوں سے ہٹا کر ان کی خدمات ایف بی آر کے ایڈمن پول کے سپرد کی گئی تھیں جبکہ اس سے قبل بھی وزیراعظم کے حکم پر پچھلے سال اپریل میں کرپشن کے الزامات پر ایف بی آر میں گریڈ 21 اور 22 کے 12 سے زائد افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن اب سنائونی آئی ہے کہ ایف بی آر نے اپنے افسران کے لئے 6 ارب روپے مالیت کی نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں سامنے آنے والی دستاویز کے مطابق ایف بی آر نے 1010 نئی گاڑیاں خریدنے کے لئے کمپنی کو لیٹر آف انٹینٹ لکھ دیا ہے جن کی لاگت 6 ارب روپے سے زیادہ ہو گی جس کے تحت نئی گاڑیوں کی خریداری 2 مراحل میں ہو گی۔ گاڑیوں کی خریداری کے لئے 3 ارب روپے کی پیشگی ادائیگی کی جائے گی،3 ارب روپے 500 گاڑیوں کی مکمل ادائیگی کے طور پر تصور کیے جائیں گے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 500 گاڑیوں کی پہلی کھیپ کی ترسیل کے بعد بقیہ ادائیگی کی جائے گی، 1010 گاڑیوں کی ڈلیوری جنوری سے مئی 2025 کے دوران کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں جنوری میں 75، فروری میں 200 گاڑیاں ڈلیور کی جائیں گی جبکہ مارچ میں 225 گاڑیوں کی ڈلیوری کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں اپریل میں 250 اور مارچ میں 260 گاڑیاں ڈلیور کی جائیں گی۔ ترجمان ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی خریداری ایف بی آر کے ٹرانسفارمیشن پلان کا حصہ ہے۔ یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کی استعداد کار بہتر بنانے کے لئے لی جا رہی ہیں، گاڑیاں صرف فیلڈ افسران کے لئے ہوں گی۔ تاجر رہنمائوں نے سوال کیا کہ کیا ایک غریب اور مہنگائی کے شکار ملک میں اس قدر مہنگی گاڑیاں ان افسران کو دینا عقلمندی کا کام ہے جن کی محکمانہ کارکردگی پر ہمیشہ سے سوالات اٹھتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے شہباز شریف کی تازہ ترین
تجویز کے مطابق احتجاجی طور پر او۔۔۔ بھی کہا اور ملکی نظام کا رونا بھی رویا کہ وطن عزیز میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے اتنے مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ کوئی کام بھی ڈھب سے نہیں ہو رہا۔ ملک میں ایک طرف عیش و عشرت اور دوسری طرف بھوک، افلاس اور خودکشیاں ہیں۔ 10فیصد کی رفتار سے غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے 65 فیصد عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس میں اضافہ در اضافہ سے یہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ گرانی اس قدر ہوگی کہ جینا بھی گراں ہوگا۔ بدقسمتی سے مراعات، آسائشیں اور ترقیاں کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کے حصے میں آ رہی ہیں۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عام پاکستانی کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ان حالات میں عام آدمی کو بھی اپنی ترقی کیلئے دن رات ایک کر دینا چاہیے سب سے ضروری یہ ہے کہ اپنے بچوں کو بلا تخصیص جنس تعلیم دلوانا اپنے اوپر اس طرح فرض کر لیا جائے جیسے ہم بھوک کے وقت خوراک کھاتے ہیں۔ تعلیم یافتہ ہوئے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں یہ بات بھی ہر کسی کو جان لینی چاہیے کہ حالات سے گھبرانے والے کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ کامیابیوں کیلئے اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا۔ اپنے پاں پر کھڑے ہو کر ہم کامیابیوں کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ بھیک میں ملی ہوئی امداد یا قرض سے کسی قوم نے آج تک ترقی نہیں کی۔ تیز رفتار ترقی کیلئے ہمیں اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ یہ بات سچ ہے کہ عوام کی غالب اکثریت کو توقع تھی اگر بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم بن گئے تو ملک کی معاشی حالت بہتر ہو سکتی ہے لیکن یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور وہ کرپشن کنگ ثابت ہوئے اور آج کل کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بہرحال سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد موجودہ حکومت نے مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، آٹے، سبزیوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ عام استعمال کی چیزیں بھی اب عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہو گئی ہیں۔
یاد رہے کہ ہمارے عظیم لیڈر محمد علی جناحؒ نے 24اپریل 1943ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارتی تقریر میں فرمایا تھا کہ پاکستان میں عوام کی حکومت ہوگی۔ انہوں نے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب یہ سسٹم نہیں چلے گا، پاکستان میں ظلم ہر شکل میں ختم کروں گا، لیکن ہم آج اسلام اور قائد اعظمؒ کا درس بھلا چکے ہیں۔ لالچ اور خود غرضی نے معاشرہ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے امیر، امیرترین ہوتے جا رہے ہیں۔ شہر، گائوں جہاں بھی چلے جائیں۔ غربت ہی غربت نظر آتی ہے۔ لوگوں کے پاس 2 وقت کی روٹی نہیں۔ ان حالات میں قائد اعظمؒ کی سوچ اور افکار کی روشنی میں ایک منصفانہ نظام کا قیام ہے ناگزیر ہے۔ اس سے ہی موجودہ سیاسی و سماجی ناہمواریوں کا خاتمہ ممکن ہے، 22کروڑ عوام کو ہر شعبہ زندگی میں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہوں گے۔ اعلیٰ تعلیم، علاج معالجہ کی سہولیات، انصاف، روزگار میسر آ سکے گا۔ پاکستان کی ترقی کیلئے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب تک پاکستان کے تمام قرضے ادا نہیں کر دیئے جاتے وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں، ہر قسم کی مراعات، پروٹوکول اور الائونس بند نہیں کر دیئے جاتے اور یہ رقم ایک مربوط سسٹم کے تحت ہر یونین کونسل کی سطح پر خفیہ سروے کر کے ان لوگوں میں بانٹ نہیں دی جاتی جو کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس وسائل نہیں تب تک کچھ بھی بہتر نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ اس خفیہ سروے کیلئے بلدیاتی کونسلروں، کریانہ فروشوں اور سبزی بیچنے والوں سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ یقیناً پاکستان کے تمام تر وسائل پر قابض اشرافیہ کو یہ تجویز پسند نہیں آئے گی اور وہ دل و جان سے ایسی ہر تجویز کی مخالفت کریں گے کیونکہ وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو ان کے مفادات ایک ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بیوروکریسی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ اس طبقہ کی تمام تر آسائشیں پاکستان کے دم سے ہیں۔ اس لئے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے خاتمہ کے لئے حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے جب تک حکومت کی پالیسیاں عوامی نہیں ہوں گی بہتری نہیں آ سکتی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملکی حالات تبدیلی سرکار کے بعد تجربہ کار حکومت سے بھی نہیں سنبھالے جا رہے۔ ڈالر کی اڑان، مہنگائی، مہنگی ادویات، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی سب سے بڑی بلندی تک پہنچ گئی ہیں جس سے عوام کی ’’ باں باں‘‘ ہو گئی ہے جبکہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ اگر احتجاج کرنا بھی ہے تو صرف’’ او ‘‘ کی آواز نکالو۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک دیہاڑی دار اپنی کمائی سے ڈھائی سو روپے لٹر پٹرول خریدے گا تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ وزرا، آرمی افسران، ججز، بیوروکریٹس کو بھی مفت پٹرول ملنا بند ہونا چاہئے اگر معیشت کو بہتر کرنا ہے اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی ذلالت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو اس اشرافیہ کو ملنے والی سبسڈیز بھی ختم کرنا ہوں گی۔ اگر پاکستان میں 20000افراد کو پٹرول فری کی سہولت میسر ہے اور اگر ایک آفیسر ماہانہ 400لٹر پٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے جس کو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریباً 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔ یہ ہے وہ ناسور جو ملک کو قرضوں کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔ تمام سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ، ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہئے۔ اشرافیہ کے لئے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہئیں۔ اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہئیں۔ اشرافیہ کے یورپ و امریکہ میں فری علاج بند ہونے چاہئیں۔ اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہئیں۔ ملک کی اشرافیہ کو 6، 8،10کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہئیں۔ تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہئیں اگر ایک سے 16سکیل کا ملازم اپنے تمام اخراجات تنخواہ میں پورے کرتا ہے تو تمام ملازمین کو اپنے اخراجات اپنی تنخواہ سے پورے کرنے چاہئیں۔ یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر ناردرن ایریاز میں سیر و تفریح کر رہی ہوتی ہیں جبکہ غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button