کراچی سی ٹی ڈی اہلکار ہی کرپٹو کرنسی تاجر کے ’اغواکار‘ نکلے، بھاری رقم اکاؤنٹ میں منتقل

منگھوپیر پولیس اسٹیشن میں 27 دسمبر کو درج کی گئی ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق شکایت کنندہ محمد ارسلان نے بتایا کہ وہ منگھوپیر میں صائمہ عربین ولاز میں رہتا تھا اور کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتا تھا۔
تقریباً 15-20 دن پہلے حامد کے نام سے ایک شخص نے اس سے ڈالر خریدنے کے لیے رابطہ کیا لیکن اس نے اسے بتایا کہ اس نے ڈالر کی فروخت/خریداری نہیں کی۔ مذکورہ شخص 10-15 دن تک مسلسل اس سے رابطے میں رہا لیکن وہ اسے ٹالتا رہا۔
اس کے بعد حامد نامی شخص نے اپنے دوست زوہیب سے رابطہ کیا اور بعد ازاں 24 دسمبر کی رات تین افراد صائمہ عربین ولاز میں ارسلان کے دفتر آئے۔ ان میں سے دو نے اپنی شناخت مزمل اور حماد کے نام سے ظاہر کی۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے 30 ہزار ڈالر مانگے تھے اور جب ارسلان نے غیرملکی کرنسی کی مد میں رقم طلب کی تو اہلکاروں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور 45 منٹ رکے رہے۔ بعدازاں ملزمان نے ارسلان کو بتایا کہ اشعر نامی شخص ادائیگی کرے گا اور تمام لوگ 25 دسمبر رات ایک بجے قریبی ہوٹل پہنچے جہاں ایک گاڑی آئی جس میں تین افراد سوار تھے اور انہوں نے اپنا نام اشعر، مزمل اور زمان بتایا۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اس نے اشعر سے رقم کی ادائیگی کا تذکرہ کیا جس کے بعد وہ مسلسل ٹالتا رہا اور کسی کو فون کیا جس کے بعد ایک بج کر 40 منٹ ایک پولیس وین آئی جس کی نمبر پلیٹ نہیں تھی، پولیس وین سے سادہ کپڑوں میں ملوث 5 افراد باہر آئے، انہوں نے اپنے منہ ڈھانپ رکھے تھے اور ارسلان کو اپنے ساتھ ایف آئی اے صدر آفس لے آئے۔
”سادہ کپڑوں میں پولیس والوں“ نے زبردستی اس کا Binance اکاؤنٹ کھولا اور 340,000 ڈالر مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کر دیے۔ انہوں نے اس کی جیب سے نقدی بھی چھین لی۔
انہوں نے اس کا سیل فون ری سیٹ کیا، اسے واپس دیا اور صبح 4 بجے اسے قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے قریب چھوڑ دیا۔ اس نے رکشہ کرایہ پر لیا اور اپنے گھر پہنچا۔