CM RizwanColumn

بینظیر کا قتل اور طالبان۔۔۔ خان

جگائے گا کون؟
تحریر: سی ایم رضوان
گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی ٹرم متعارف کروا کر ملکی عوام و خواص کو دھوکہ دینے والوں کا کردار خود چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے کہ یہ پاکستان میں انتشار بدامنی اور خونریزی کے خواہشمند تھے اور ہیں۔ اس حوالے سے ان کے بیانات خود ان کی بدنیتی کی چغلی کھاتے رہے ہیں۔ دور کیا جانا ہے 28دسمبر 2022ء کو پی ٹی آئی کے بانی نے خود کہا تھا کہ ہم 5سے 10ہزار پاکستانی طالبان کو افغانستان سے لانا چاہتے تھے، انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ان کی حکومت 5سے 10ہزار پاکستانی طالبان جنگجوئوں کو افغانستان سے پاکستان لانے پر مذاکرات کر رہی تھی۔ اس وقت ترکیہ کے دانشوروں اور طلبا سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان سے افغانستان جانے والے ان افراد کی تعداد 40ہزار تھی جن میں ان کے اہل خانہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد نئی حکومت نے جنگجوئوں کی آباد کاری کے معاملے پر توجہ نہیں دی، پاکستان کی خارجہ پالیسی درست نہیں تھی۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم امریکی ڈالرز کیلئے دوسروں کی جنگ لڑتے رہے حالانکہ یہ محض اس نوعیت کی دلیل تھی کہ اگر ماضی میں ملک کی تقدیر سے کھلواڑ کیا گیا تو کیا انہیں یعنی بانی پی ٹی آئی کو بھی اسی نوعیت کے کھلواڑ کا حق نہیں۔ انہوں نے یہ بھونڈی دلیل بھی دی دی کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق کرنا چاہیے افغان طالبان کا پاکستانی طالبان سے ویسا رابطہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب میری حکومت گئی تو سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی توجہ ٹی ٹی پی سے ہٹ گئی، اس کے بعد پاکستانی طالبان کو اُبھرنے کا موقع مل گیا یہ بھی ایک بھونڈی دلیل ہے۔
اب آتے ہیں بینظیر بھٹو کے قتل میں طالبان کے ملوث ہونے یا مشکوک ہونے پر اس ضمن میں حقائق یہ ہیں کہ راولپنڈی انسداد دہشت گردی عدالت میں ایک دہائی تک چلنے والے اس مقدمی کا فیصلہ جج محمد اصغر نے سناتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے پانچ ملزموں کو بری کر دیا تھا، دو پولیس افسروں ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو 17؍17سال قید اور 5؍5لاکھ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اسی عدالت نے آرمی جنرل پرویز مشرف کی جائیداد کو ضبط کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ دیا تھا۔ راولپنڈی کی عدالت کے اس فیصلے نے نہ صرف بینظیر بھٹو کے چاہنے والے بلکہ پورے ملک کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا، کیونکہ طالبان سے تعلق رکھنے والے پانچ ملزموں کے اقراری بیانوں اور دیگر ثبوتوں کے باوجود ان کو بری کر دیا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو قتل کیس میں شامل ملزموں کے اقراری بیانات، موبائل فونز پر گفتگو کا ڈیٹا ریکارڈ اور دوسری معلومات و ثبوت ملک کی معتبر ترین ایجنسی آئی ایس آئی نے خود جمع کئے تھے۔ جن میں بینظیر بھٹو پر گولی چلانے والے اور دھماکہ کرنے والے دو افراد سعید عرف بلال اور اکرام اللہ سے برآمد کی گئی چیزیں جن میں بلال کے جوگر شوز اور دوسرے ملزم کے پیروں میں اس وقت پہنا ہوا سینڈل بھی برآمد ہوا تھا، جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بری کئے گئے پانچوں ملزمان بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تھے۔ اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی 17سیکنڈ والی ٹیپ کی گئی گفتگو جو 28دسمبر 2007ء کو 9بج کر 14 منٹ پر پشتو زبان میں ریکارڈ کی گئی اس میں بات کرنے والا تحریک طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کو مبارک باد دیتا ہے کہ یہ کام اکرام اللہ اور بلال نے کیا ہے جو ہمارے آدمی ہیں، جس کے جواب میں بیت اللہ کہتا ہے ’’ لڑکے تو بڑے دلیر تھے اور بڑا اچھا مارا ہے‘‘۔ ایسے ٹھوس ثبوت ملنے کے باوجود ملزمان کو بری کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔ دوسری طرف دو پولیس افسروں کو بینظیر بھٹو کو تحفظ نہ دینے اور غفلت برتنے، واردات والی جگہ کو پانی سے صاف کر دینے کے الزام میں سترہ سترہ سال قید اور پانچ لاکھ روپیہ فی کس جرمانہ کیا گیا۔ بری ہونے پانچ ملزموں میں اعتزاز شاہ اصل ساکن سنگل کوٹ مانسہرہ، اس وقت کراچی کی میٹرول کالونی میں رہتا تھا، شیر زمان جنوبی وزیرستان، حسنین گل ڈیون کالونی راولپنڈی اور اس کا چچا زاد بھائی رفاقت اعوان اور پانچواں رشید احمد شبقدر چار سدہ خیبر پختونخوا کا رہائشی تھا۔ ملزمان نے اقرار کیا تھا کہ لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کی کارروائی کی تیاری انہوں نے لیاقت باغ سے پانچ کلو میٹر دور ڈھوک سیداں قائد اعظم کالونی میں کی جو دونوں چچا زاد بھائیوں رفاقت اور حسنین کا گھر تھا، دونوں کو اس واردات کے لئے قاری نادر عرف اسماعیل، نصراللہ عرف احمد نے قائل کیا تھا کہ مسئلوں کا حل صرف انتہا پسند کارروائیوں سے ہی ممکن ہے، انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ بینظیر بھٹو کو قتل کرنے سے پہلے بھی وہ راولپنڈی میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ پاکستان کی مختلف ایجنسیز نے بھی جامعہ حقانیہ کے ریکارڈ سے پتا لگایا تھا کہ دونوں کے نام مدرسے میں رہنے والوں کے طور پر رجسٹر میں درج تھے۔ بینظیر بھٹو پر حملہ کرنے والے تربیت یافتہ خودکش بمبار سعید عرف بلال اور اکرام اللہ کو واقعہ والے دن 27دسمبر 2007ء کو رفاقت اور حسنین اپنی ٹیکسی میں بٹھا کر لیاقت باغ لے کر آئے تھے، اس سے پہلے صبح کو وہ فیصل مسجد اسلام آباد بھی گئے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے ڈھوک سیداں کے گھر میں پنسل کی مدد سے لیاقت باغ کا نقشہ بنا کر سعید عرف بلال اور اکرام اللہ کو بتایا کہ کس جگہ پر اور کیسے حملہ کیا جائے، راولپنڈی کے بازار سے خریدی گئی مہندی بھی اپنے ہاتھوں پہ لگائی تھی، روایت ہے کہ خود کش بمبار کو دولہا کی طرح تیار کیا جاتا ہے کہ جنت میں حوریں اس کا انتظار کر رہی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس بمبار کی مہندی لگے ہاتھ کی رنگین تصویر اس قتل کیس کی فائل میں موجود ہے۔ پولیس کی طرف سے 17مئی 2010 ء کو ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی، جس نے باقاعدہ طور پر مدرسے کے داخلہ رجسٹر اور ملزمان کے بارے میں تفصیلی شواہد جمع کئے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ مدرسے کے کمرہ نمبر 85اور 111میں بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش تیار کی گئی، رپورٹ کے مطابق ملزم حسنین گل کو پولیس نے 5جنوری 2008ء کو ہی گرفتار کر لیا تھا اس نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اعترافی بیان بھی ریکارڈ کرایا اور پولیس نے حملہ کرنے والے چاروں ملزمان کی شال، جوگر شوز کا جوڑا اور ٹوپی بھی برآمد کر لی تھی۔ جن کی ایف بی آئی لیبارٹری امریکا، آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف پیتھالوجی راولپنڈی، فورنزک ڈی این اے اور حتمی رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ یہ ساری چیزیں ان خود کش بمباروں کی ہیں۔ بینظیر بھٹو قتل کیس کے تفصیلی مطالعہ اور جائزے میں وہ دستاویز، مختلف ایجنسیوں کی رپورٹس اور تصویریں دیکھنے کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بری کئے گئے پانچوں ملزمان جن میں تین خیبر پختونخوا کے رہنے والے تھے، رفاقت اور حسنین اعوان راولپنڈی کے باسی تھے، بالواسطہ یا بلا واسطہ اس قتل کی واردات میں ملوث تھے۔ لہٰذا پانچوں ملزموں کو بری کرنا خود ملکی اور بیرونی دنیا کی تحقیقی ایجنسیوں کی رپورٹوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔خود بانی پی ٹی آئی نے ان حقائق کو جانتے بوجھتے ہوئے اپنی پارٹی پالیسی حکومتی پالیسی اور سیاسی ترجیحات میں طالبان کی حمایت اور مدد کو مقدم رکھا اس کے باوجود کہ انہیں اسی بناء پر طالبان خان کا لقب بھی ملا مگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ طالبان کے ساتھ محبت کا صلہ آج انہیں یہ ملا ہے کہ ان کی احتجاجی اور انتشاری سیاست میں یہی طالبان اور ان کے محب پی ٹی آئی کی ہر احتجاجی کال پر انتشار اور قتل و غارتگری کا ہر سامان لے کر پہنچ جاتے ہیں اور بقول ڈی جی آئی ایس پی آر انتشاری ٹولے کی معاونت کرنے میں یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ ملکی استحکام اور سکیورٹی کو خدشات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اب اس کا حل تو ایک ہی ہے کہ اس انتشاری ٹولے کو کالعدم قرار دے دیا جائے اور اس میں تاخیر اور تامل سے سراسر اجتناب کیا جائے ورنہ کل کلاں زیادہ نقصان کے خدشات ہیں۔

جواب دیں

Back to top button