ColumnTajamul Hussain Hashmi

مفاہمت کی بانی جماعت

تجمّل حسین ہاشمی
تحریک انصاف کے بانی عمران خان کا بیانیہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے کہ سندھ تمہارا اور پنجاب ہمارا، اس بیانیہ میں کتنی صداقت ہے اس مفاہمت پر دونوں جماعتوں میں کون زیادہ فائدے میں رہا۔ دونوں جماعتوں کے ووٹر کی شرح کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون سی جماعت فائدے میں رہی۔ کس نے کتنا ووٹ اس کے صوبے سے حاصل کیا۔ جماعت کی کتنی گروتھ رہی۔ ویسے یہ حقیقت ہے پیپلز پارٹی کی قیادت (جو اللہ کو پیاری ہوچکی ہے) نے صوبہ پنجاب کو ہمیشہ اہمیت دی اور اپنے ووٹ بینک کو مضبوط رکھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے کئی ایک فیصلے کئے جو تاریخی ہیں۔ جمہوریت کیلئے سب سے نقصان اٹھانے والی واحد جماعت ہے۔ ملک میں مفاہمت کی بنیاد کا بیڑا بھی انہیں نے اٹھایا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی جنگ بھی کئی ادوار تک جاری رہی۔ آج کل لفاظی محدود ہیں۔ ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی جماعت سمجھی جاتی رہی لیکن پھر بھی سیاسی مقدمات کی بھرمار رہی، الزامات کی سیاست، کردار کشی عروج پر رہی۔ میثاق جمہوریت کے بعد ایک بار پھر ملک میں جمہوری نظام بحال ہوا۔ آمریت سے جان بخشی ہوئی ورنہ سیاسی مقدمات کی ایک لمبی سیریز چلتی۔ بی بی کی شہادت ملک کیلئے بڑا نقصان تھا۔ سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کمزور ہوئی لیکن آصف علی زرداری نے بی بی کی مفاہمت کو زندہ رکھا اور آج بلاول بھٹو اپنی والدہ کی مفاہمتی پالیسی پر ہے۔ سنہ 2013میں پی ٹی آئی کے دھرنا میں پیپلز پارٹی کا اسمبلی میں کھڑا ہونا ہی میثاق جمہوریت تھا، چار حلقے ن لیگ کی سیاسی ساکھ کو ختم کر دیتے۔ آج پھر حکومت پیپلز پارٹی کے تعاون پر کھڑی ہے۔ دونوں جماعتوں کی آپس میں مفاہمت ثابت ہے کیوں کہ آصف علی زرداری مفاہمت پسند ہیں لیکن پارٹی رہنمائوں کا اپنی اپنی قیادت پر بھروسہ کی شرح میں فرق موجود ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے انتخابات کے نتائج نے پلاننگ کا پردہ چاک کیا۔ صوبہ سندھ میں ن لیگ نے 2013کے الیکشن میں 6فیصد، 2018میں 2فیصد اور 2024میں 1.66فیصد ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح پیپلز پارٹی نے پنجاب میں 2013کے الیکشن میں 8.84فیصد، 2018میں 5.38فیصد اور 2024 میں 5.53 فیصد ووٹ حاصل کئے لیکن اس شرح سے واضح ہے کہ مسلم لیگ ن کو سندھ اور پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ملنے والے ووٹوں کی شرح میں کوئی خاص فرق نہیں لیکن ن لیگ سندھ کے کئی اہم رہنما قیادت کی عدم توجہ، پارٹی میں غیر سیاسی شخصیات کی انٹری اور اہم عہدوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر ناراض رہیں۔ وفادار رہنمائوں کو سائیڈ لائن کیا گیا۔ رہنمائوں، ورکروں کے ساتھ ناانصافی رہی۔ سندھ کے حوالہ سے قیادت کی غیر سنجیدگی سے کئی رہنما پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ممتاز بھٹو، شیرازی، اسماعیل راہو، عرفان مروت، عبدالقادر مندوخیل، حکیم بلوچ، شفیق جاموٹ، سلیم بلوچ، غوث علی شاہ، سید حفیظ الدین جیسے کئی اور رہنمائوں نے بھی لاتعلقی اختیار کرلی لیکن ن لیگ قیادت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ کراچی ڈویژن کے رہنمائوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی لیکن ن لیگی قیادت کو فرق نہیں پڑا۔ وہ خود کو کامیاب کہتے رہے۔ گزشتہ روز ن لیگ کے سینئر نائب صدر رانا محمد احسان نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ گزشتہ 30سال سے مسلم لیگ ن کے وفادار ساتھی رہے، کراچی میں مشکل ترین حالات میں جب گولی کی جنگ جاری تھی اس وقت بھی میاں نواز شریف کے وفا دار رہے۔ حلقے میں کارکن گولیوں کا نشانہ بنے لیکن قیادت کی طرف سے کوئی مالی امداد یا ہمدردی کا بیان تک سامنے نہیں آیا۔ گورنر ہائوس ان لوگوں کے حوالہ رہا جن کا ن لیگ سندھ میں کوئی سیاسی کردار نہیں تھا۔ یہ سب کچھ میں دیکھ چکا ہوں کیوں کہ میں کراچی کا رہائشی ہوں۔ ن لیگ کا ووٹر قیادت کی بے رخی کا شکار رہا۔ ملکی تاریخ میں سب سے لمبا عرصہ اقتدار میں رہنے والی شریف فیملی نے سندھ کے رہنمائوں کو کبھی ترجیح نہ دی۔ ان کو کبھی نہیں سنا، ان کو کبھی فنڈ جاری نہ کئے۔ اپنے حلقوں میں کام کے محتاج رہے۔ پیپلز پارٹی قیادت نے اپنے رہنمائوں کے وقار کا خیال رکھا۔ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت کے حوالہ سے عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹر، سپورٹر کا خیال رکھتی ہے۔ کبھی تنہا نہیں چھوڑتی ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ اپنے رہنمائوں کو کھلا نوازا ہے۔ ماضی میں کئی رہنما پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر گے لیکن پھر واپس لوٹ آئے، یہ پیپلز پارٹی کی کامیابی ہے۔ ن لیگ کے جس رہنما نے پارٹی چھوڑی وہ کبھی واپس نہیں آیا۔ ن لیگ کی قیادت اس وقت اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔ میڈیا پر کئی رہنما فیصلہ سازی پر ناراضگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، پارٹی موجودہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحران کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے ۔ پی ٹی آئی کے بیانیہ کا توڑ ان کے پاس نہیں رہا۔ اس وقت حکومت کو معاشی مشکلات کے ساتھ انٹر نیشنل دبائو کا سامنا ہے۔ ملک کو اس وقت مفاہمت کی ضرورت ہے۔ فوجی عدالتوں کو لے کر انٹرنیشنل ممالک دبائو بڑھا رہے ہیں لیکن 9مئی کا واقعہ ملکی سلامتی سے جڑا ہے۔ ملکی سلامتی مقدم ہے۔ سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس گناہ کی تلافی لازم ہے۔

جواب دیں

Back to top button