ColumnTajamul Hussain Hashmi

کتابوں کے شوقین سیاست دان؟

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
جنرل ضیا کی زندگی متاثر کن تھی، ہمارے لکھاری ان کے دور، شخصیت سے متعلق بہت کچھ لکھتے ہیں۔ انسان کی سمجھ محدود ہے، اس کی رہنمائی کیلئے حضورؐ کی زندگی مشعل راہ ہے۔ انسان کسی بھی وقت کسی جگہ کمزور ہو جاتا ہے اور اس کے فیصلے بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ کئی سال پہلے میرا رابطہ ایک ایسے بزرگ سے ہوا جو آرمی سے ریٹائرڈ تھا۔ اس کا انکشاف کافی عرصے بعد ہوا کہ وہ جنرل ضیا کی حیاتی میں ان کے ساتھ ڈیوٹی دے چکا تھا۔ چچا انتہائی نفیس انسان ہے۔ بہت زیادہ باخبر، معاملہ فہم بھی۔ ایک دن مجھے کہنے لگا بیٹا میں جنرل ضیا شہید کا گارڈ رہا ہوں۔ میں نے پوچھا چچا جنرل ضیا کیسا انسان تھا۔ کہنے لگا بیٹا بہت پیارا اور ایمان والا تھا۔ کہنے لگے جب وہ کراچی آتا تو میری ڈیوٹی اس کے ساتھ ضرور ہوتی تھی۔ بہت خدا ترس تھا۔ فجر کی نماز کے بعد کافی دیر تک قرآن پڑھتا۔ میں نے کئی دفعہ قرآن کی تلاوت کے دوران روتے دیکھا ہے۔ میرے ساتھ صبح کی واک کرتا۔ بیٹا بہت پیارا انسان تھا۔ اللہ پاک جناب کو جنت میں جگہ دے۔ غریبوں کا ہمدرد تھا۔ بات توجہ سے سنتا تھا اور فوری مدد کے احکامات جاری کرتا تھا۔ جناب رئوف کلاسرا صاحب کی کتاب ’’گمنام گائوں کا آخری مزار‘‘ پڑھ رہا تھا،
جس میں رئوف کلاسرا کے دوست یوسف صاحب کا انٹرویو کافی معلوماتی تھا، جس میں جنرل ضیا صاحب سے متعلق خاص انکشاف سامنے آیا۔ یوسف صاحب کہتے ہیں کہ جنرل ضیا مجھے ایوان صدر اکثر بلایا کرتے تھے۔ یوسف صاحب نئی کتابیں لے کر ایوان صدر پہنچ جاتے تو جونہی ضیا صاحب کو معلوم پڑتا تو فوراً میرے پاس آتے۔ نئی کتابیں شیلف میں رکھ دی جاتیں۔ ضیا صاحب کتابوں کے اوراق الٹ کر دیکھتے، چند لائنز پڑھتے اور پھر چند کتابیں چن لیتے۔ بولتے کہ جی یوسف میاں! کتنا بل بنا؟ جیب سے پیسے نکالتے، اگر بل 5ہزار چار سو روپے کا بنتا تو کہتے یوسف میاں! چار سو روپے تو رعایت کرو، وہ رعایت کرانا کبھی نہیں بھولتے۔
یوسف صاحب کہتے ہیں ایک دن وزیراعظم ہائوس سے فون آیا کہ بے نظیر بھٹو ان کی دکان پر کتابیں خریدنے آنا چاہتی ہیں۔ چاروں طرف سکیورٹی لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ آئیں، کچھ کتابیں لیں۔ میں نے کہا آپ بل رہنے دیں تو جناب محترمہ بینظیر بھٹو بولیں، ’’میں کتابوں کی عاشق ہوں، میں ایک خریدار کے طور پر آئی ہوں نہ کہ ملک کی وزیراعظم کی حیثیت سے۔‘‘ یوسف صاحب کہتے ہیں کہ ایک دن ایک بندہ میری دکان پر آیا اور مجھے ایک لسٹ دی اور کہا آصف علی زرداری صاحب نے جیل سے یہ لسٹ بھیجی ہے۔ کتابوں کے نام پڑھ کر میں حیران ہوا کہ زرداری صاحب جیل میں بیٹھ کر ایسی کتابوں کی فرمائش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی سیاست دان نے برٹرینڈ رسل کو پورا پڑھا ہے تو وہ زرداری صاحب ہیں۔ گیارہ لاکھ کی کتابیں خریدیں۔ یہ معلومات بہت اہم تھیں۔ زرداری صاحب بھی علم سے عشق رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کو علم سے رغبت تھی۔ غلام مصطفیٰ جتوئی، امجد فاروق، فاروق لغاری جیسے لیڈر بھی کتابوں کے شوقین تھے۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی جب پاکستان آئے تو انہوں نے بھی کتابوں کی دکان کا پوچھا تو پھر ان کو مسٹر بکس لے جایا گیا۔ میاں نوازشریف کے حوالہ سے پوچھا تو کہنے لگے میاں نوازشریف صاحب کو کتابوں کا شوق نہیں اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کو بھی کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں ما سوا خرم دستگیر خان کے، وہ کتابوں کے شوقین ہیں۔‘‘
سابقہ وزیراعظم عمران کی خبر زیر گردش ہے کہ وہ آج کل جیل میں قرآن پاک کو تفصیلی پڑھ رہے ہیں، یقیناً انسان کو اگر کوئی ذات تبدیل کر سکتی ہے وہ اللہ اور اس کی کتاب قرآن، حضورؐ کی محبت اور آقا کی زندگی ہے، جو انسان کی سوچوں کو بدل سکتی ہی۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ بڑے بڑے سیاست دان، طاقتور جنرل، ججز خدا ترس ہونے کے بعد بھی ایسے فیصلے کر جاتے ہیں جو ان کی حیاتی کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے، ان کی اولادوں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض کاروباری شخصیات عوامی خدمات میں پیش پیش ہونے کے باوجود کپڑوں پر لگے کالے داغ ختم نہیں کر سکے ہیں۔ بات ہماری کتاب کی ہورہی
تھی۔ دوست عامر ایڈووکیٹ سے ملاقات ہوئی، گپ شپ کے بعد کہنے لگے ’’معاشرہ میں تبدیلی ماں اور کتاب (تعلیم) ہی لا سکتی ہے، ہمارے لیڈروں نے تعلیمی نظام کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ اپنی زبان سے دوسروں کو بے سکون کر رہے ہیں۔ اس بے سکونی کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ سیاست دانوں نے انسانی رویوں کو بہتر بنانے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ تفریق اور تقسیم میں الجھائے رکھا، تخت کی چاہت میں پھنسے رہے۔ ہم کیسے سوچ رہے ہیں کہ ملک بدل جائے گا جبکہ ہم تعلیم سے دور ہیں۔ ملک سے لائبریری کا نظام ختم کیا جا چکا ہے۔ کتاب سڑکوں کے فٹ پاتھ پر نظر آتی ہے، شدت پسندی عام ہے، لیڈروں کے نظریات میں شدت پسندی کے علاوہ کچھ نہیں رہا کیونکہ انہوں نے بھی کامیابی نعروں اور سیاسی بیانیوں کو سمجھ لیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی کے چکر میں ملک کی تعمیر بھول گئے ہیں، کیسے قوم کو تعمیر کریں گے۔ ایک دوسرے کو غدار اور منافقین قرار دیئے جارہے ہیں، ہمارے بچے یہی کچھ دیکھ رہے ہیں۔ بچوں کو علم سے دور کرنیوالے ہمارے سیاست دان ہیں۔

جواب دیں

Back to top button