ColumnQadir Khan

جنوبی کوریا مارشل لاء سے مواخذے تک

پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جنوبی کوریا اس وقت ایک سنگین سیاسی بحران کا شکار ہے جو نہ صرف اس کے داخلی حالات بلکہ بین الاقوامی تعلقات اور انڈو پیسیفک خطے میں اس کے کردار پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ 3دسمبر 2024ء کو صدر یون سک یول کی جانب سے مارشل لاء نافذ کرنے کا متنازع فیصلہ، جو صرف چھ گھنٹے جاری رہا، نے سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا یا۔ اس کے فوری بعد اپوزیشن کی جانب سے مواخذے کی تحریک شروع کی گئی ، قومی اسمبلی نے صدر یون کے مواخذے کے لیے پہلی تحریک ناکام ہوئی تھی تاہم دوسری تحریک میں 204اراکین نے ووٹ دیا ،اس میں حکمراں جماعت بھی شامل تھی، مجموعی ووٹ دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ تھے، جس کے نتیجے میں انہیں عہدے سے معطل کر دیا گیا اور معاملہ اب آئینی عدالت کے سامنے ہے۔ یہ عدالت آئندہ 180دنوں میں فیصلہ دے گی، جس سے جنوبی کوریا کی مستقبل کی سیاست کا تعین ہوگا۔
یون کی حکمران جماعت پیپلز پاور پارٹی (PPP)کے سربراہ ہان ڈونگ ہون نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے حکام نے یون سے بدھ کے روز مارشل لاء کے حکم نامے کے حوالے سے پوچھ گچھ کے لیے پیش ہونے کی درخواست کی تاہم یون نے پہلے پوچھ گچھ کے لیے طلبی کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے استغاثہ نے دوسری درخواست جاری کی۔ اپوزیشن لیڈر لی جے میونگ نے آئینی عدالت سے بحران کو جلد حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دسمبر 2024ء کے اوائل میں شروع ہونے والا یہ بحران، جس میں مارشل لاء کے اعلان نے نہ صرف صدر یون کی حکومت کو غیر مستحکم کیا بلکہ جنوبی کوریا کی جمہوری بنیادوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ صدر یون نے مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان میں جواز دیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی مبینہ ’’ ریاست مخالف سرگرمیوں‘‘ اور ’’ شمالی کوریا کے کمیونسٹوں کے ساتھ ساز باز‘‘ قرار دیاتھا، جبکہ شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے یون پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ’’ بغاوت کا سرغنہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس اعلان کے تحت جنوبی کوریا میں تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں، قومی اسمبلی کے اجلاس پر پابندی عائد کی گئی، اور میڈیا کو خاموش کر دیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ اپوزیشن کے رہنماں کے ساتھ ساتھ صدر کی اپنی جماعت کے کچھ رہنماں کو بھی گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔
جنوبی کوریا کی داخلی سیاست میں یہ بحران کئی وجوہ کا نتیجہ ہے۔ واضح رہے کہ صدر یون سک یول نے مئی 2022ء میں محض 0.73فیصد کے فرق سے الیکشن جیتا، جو ان کی حکومت کی ابتدائی کمزوری کا مظہر تھا۔ اپریل 2024ء میں اپوزیشن جماعتوں کو پارلیمان میں بڑی اکثریت ملی، جس کے بعد قانون سازی کا عمل جمود کا شکار ہو گیا۔ اس دوران صدر کی پہلی خاتونِ اول کم کیون ہی پر کرپشن، تعلیمی دھوکہ دہی، اور اسٹاک میں ہیر پھیر کے الزامات نے حالات کو مزید خراب کیا۔ عوامی رائے عامہ بھی صدر یون کے خلاف ہوئی، جس کا ثبوت ان کی 11فیصد مقبولیت کی شرح ہے۔ یہ سیاسی بحران معیشت پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ 2024ء کے دوران جنوبی کوریا کی اسٹاک مارکیٹ دنیا کی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں شامل رہی، جبکہ کورین وان کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ اقتصادی نمو تقریباً جمود کا شکار ہے اور تیسری سہ ماہی میں صرف 0.1فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اس بحران کے دوران مالیاتی اداروں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ مارکیٹ کو سہارا دینے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے، لیکن سرمایہ کاروں کا اعتماد بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ سیاسی بحران نے پہلے سے سست معیشت کو مزید متاثر کیا ہے۔ جنوبی کوریا کی معیشت 2024ء کی تیسری سہ ماہی میں صرف 0.1فیصد کی شرح سی بڑھی تھی، جبکہ مالیاتی منڈیوں میں بھی شدید اتار چڑھائو دیکھنے میں آیا۔
جنوبی کوریا کا انڈو پیسیفک خطے میں کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے، لیکن موجودہ بحران نے اس کی سفارتی پوزیشن کو شدید متاثر کیا ہے۔ 15دسمبر کو سیول میں منعقد ہونے والا انڈو پیسیفک ہائی لیول فورم منسوخ کر دیا گیا، جس سے خطے میں جنوبی کوریا کی قیادت کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ صدر یون کی قیادت میں امریکہ، جنوبی کوریا، اور جاپان کے درمیان سہ فریقی سلامتی تعاون میں پیش رفت دیکھنے میں آئی تھی، لیکن موجودہ حالات میں یہ پیش رفت متاثر ہو سکتی ہے۔ اگر صدر یون کو آئینی عدالت کے فیصلے کے بعد مستقل طور پر معزول کر دیا گیا تو یہ نہ صرف جنوبی کوریا کی داخلی پالیسیوں بلکہ انڈو پیسیفک میں اس کے کردار پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ انڈو پیسیفک خطے میں جنوبی کوریا کا کردار اس کی جغرافیائی پوزیشن، اقتصادی طاقت، اور امریکہ و جاپان کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ لیکن سیاسی بحران کے دوران جنوبی کوریا کی قیادت نہ صرف خطے میں اپنی موجودگی مضبوط رکھنے میں ناکام ہو سکتی ہے بلکہ اس کے اتحادیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
جنوبی کوریا کے اس بحران نے انڈو پیسیفک خطے میں اس کے کردار کو بھی متاثر کیا ہے۔ صدر یون کی حکومت خطے میں امریکہ اور جاپان کے ساتھ قریبی تعاون پر مبنی پالیسیوں کی حامی رہی ہے، لیکن موجودہ بحران نے ان تعلقات پر منفی اثر ڈالا ہے۔ جاپانی وزیر اعظم شیگیرو اشیبا کا مجوزہ دورہ خطرے میں ہے۔ دوسری طرف، امریکہ نے بھی اپنے دفاعی مذاکرات ملتوی کر دئیے ہیں، جبکہ شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی بڑھنے کا خدشہ مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ جنوبی کوریا کا یہ بحران ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان اسٹریٹجک مقابلہ اپنے عروج پر ہے۔ چین کی جانب سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں، جبکہ امریکہ جنوبی کوریا کو اپنا اہم اتحادی سمجھتا ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی عدم استحکام نے جنوبی کوریا کے اسٹریٹجک فیصلوں کی سمت کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔
جنوبی کوریا اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں اس کے داخلی سیاسی استحکام، معیشت، اور بین الاقوامی حیثیت سبھی دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ اس بحران کے نتائج نہ صرف جنوبی کوریا بلکہ پورے خطے کی سیاست پر دور رس اثرات ڈال سکتے ہیں۔ انڈو پیسیفک خطے میں اس کا کردار اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہے۔ اگر موجودہ بحران طول پکڑتا ہے تو نہ صرف جنوبی کوریا کا جمہوری نظام بلکہ خطے کی مجموعی سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ آئینی عدالت کا فیصلہ جنوبی کوریا کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گا اور اس کے اثرات پورے انڈو پیسیفک خطے پر مرتب ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button