مولانا کیا چاہتے ہیں؟

تجمّل حسین ہاشمی
پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد مولانا فضل الرحمان کو مذہبی، سیاسی جماعتوں کی طرف سے مبارکیں دی گئیں۔ دو اہم مطالبات پارلیمان سے منظور کرانے پر ملک کے عام شہریوں کی جانب سے تحسین پیش کی گئی۔ ان دو مطالبات میں سے ایک تو سود کے نظام کا بتدریج خاتمہ تھا، اس کے متعلق شرعی عدالت فیصلہ دے چکی ہے۔ ماضی میں اس فیصلہ کیخلاف مسلم لیگ (ن) حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جبکہ دوسرا اہم مطالبہ ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کی بجائے پرانے سوسائٹیز ایکٹ 1860کے ماتحت لانا تھا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل (سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024) پارلیمان سے منظوری کے بعد ایوان صدر پہنچا تو صدر آصف علی زرداری نے اس کے مسودے پر اعتراض لگا کر واپس پارلیمان کو بھیج دیا۔ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں حکومت نے وزارت داخلہ، سکیورٹی ایجنسیوں، صوبوں، اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ملکر طویل مشاورت کے بعد دینی مدارس کو بھی تعلیمی ادارے کا درجہ دیتے ہوئے انہیں محکمہ تعلیم کے تحت ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سنہ 2019میں پی ٹی آئی حکومت کے اس فیصلے کا چاروں مرکزی اسلامی مسالک کی نمائندہ تنظیموں (بورڈز) نے خیرمقدم کیا۔ اسی فیصلہ کے تحت رجسٹریشن کیلئے وفاقی محکمہ تعلیم کے تحت ایک نیا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا جس کا نام ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن رکھا گیا۔ اس ڈائریکٹ کی سربراہی سابق میجر جنرل غلام قمر کر رہے ہیں۔ اس کے ملک بھر میں 16دفاتر قائم ہیں، جہاں مدارس کی رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں 18ہزار مدارس ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے رجسٹرڈ ہیں، ان مدارس کے مطابق 20لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔ اس وقت کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ شدید سیاسی اختلافات کی وجہ سے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے منسلک مدارس نے مدارس کو محکمہ تعلیم کے ماتحت رکھنے اور مذہبی مدارس میں عمومی تعلیم کو شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اس لئے آج مولانا فضل الرحمان کے مدارس سمیت کئی دیگر مدارس اس نئے نظام کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کہ ان مدارس کو سوسائٹیز ایکٹ 1860کے تحت رجسٹریشن کیا جائے، تاہم اس کے ساتھ انہوں نے 26ویں ترمیم ایک نئی ترمیم بھی تجویز پیش کی تھی۔ مدارس کا مقف ہے کہ ڈائریکٹوریٹ کے تحت رجسٹر ہونے سے مدارس کی خودمختاری ختم ہو جائیگی۔ نصاب کے حوالے سے ان کو حکومتی دبائو کا خدشہ ہے۔ ان کے مطابق حکومت اپنی مرضی کا تعلیمی نصاب نافذ کرانے کی کوشش کرے گی۔ ان کے مطابق حکومت تعلیمی اداروں کو ٹھیک سے چلا نہیں رہی، وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر سکول چلا رہی ہے، مدارس کو کیسے چلا سکے گی؟ جہاں زیادہ تعداد میں غریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں بچوں کو برابر حقوق، تمام سہولتیں میسر ہیں۔ مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ دنیا بھر کا خیال ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا کہیں نہ کہیں کوئی تعلق ان مدارس سے ہے لیکن یہ صرف الزام کی حد تک ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں، اسلام امن پسند مذہب ہے۔ اسلام انسانیت کی بات کرتا ہے۔ اسلام مخالف قوتیں ایسی سوچ کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ دبائو سے نافذ پالیسی سے مدارس کو نقصان ہوگا۔ مدارس کے منتظمین کا خیال ہے کہ ان کے ڈونرز (عطیہ کرنے والے) حکومتی کنٹرول کے بعد انہیں چندہ دینا بند کر دیں گے۔ ان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ لاکھوں بچوں کے تعلیمی، رہائشی اور دیگر اخراجات کیسے ممکن ہوں گے۔ حکومت اپنا نظام چلانے سے بے بس ہے۔ یہ خدشات بہت حد تک درست ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ حکومت صرف مدارس کی رجسٹریشن تک نظر آئے گی۔ اس کے بعد کسی کو کوئی خبر نہیں ہوگی۔ سرکاری سکولوں کی صورت حال سب کے سامنے ہے، تعلیمی نظام میں انتہا کی خامیاں موجود ہیں اور حکومت چلانے سے قاصر بھی ہے۔ اس لحاظ سے مولانا فضل الرحمان اور دیگر مدارس کے مطالبات حقیقت پر مبنی ہیں، حکومت کو انٹرنیشنل دبائو کا ضرور سامنا ہے لیکن حکومت کو دوسری سمت بھی سوچنا چاہئے کہ 20لاکھ بچے ان مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن کی کوئی مالی یا تعلیمی ذمہ داری حکومت پر نہیں ہے۔ مدارس کے تعلیمی نصاب میں دیگر نصاب کو بھی شامل کرنا چاہئے تاکہ ایک قرآن حافظ دنیا کا مقابلہ کر ے اور حضورؐ کے دین کو دنیا تک پھیلائے۔ ویسے ہزاروں مدارس کے انتظامی امور انتہائی منظم ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اس ترمیم کو لے کر حکومت کو باور کرا چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے فی الحال کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔ چند طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان میں انتشار پیدا ہوتا رہی، سیاسی، مذہبی انتہا پسند عناصر کو ایکٹو کرکے پاکستان کو کمزور کیا جارہا ہے۔ عوام اور اداروں میں خلا پیدا کیا جارہا ہے۔