
جگائے گا کون؟
تحریر سی ایم رضوان
جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے اس کا سسٹم خود اس ملک کے مفادات کے خلاف کام کرتا آ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے آج تک یہاں کے عام آدمی کو سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوا۔ سسٹم کوئی بھی ہو جب تک اس کے ذمہ دار اور بااختیار لوگ دیانت، خلوص اور اصول پسندی سے کام نہیں کرتے سسٹم مناسب نتائج نہیں دے سکتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اگر سسٹم کے بااختیار لوگ اصول پسندی کے برعکس جرم پسندی اور جرائم پر پردہ پوشی کی روش پر چل رہے ہوں تو پھر ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے اور ملک کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جرائم پر پردہ پوشی اور مجرموں کو سزا سے بچانے کے حیلے کرنے کی ایک مثال سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد ان سے جڑی بہت سی خبریں منظر عام پر آئی ہے۔ یہ قصہ، معروفِ زمانہ فارن فنڈنگ کیس کا ہے۔ اس کیس کا معاملہ یہ ہے کہ یہ شیطان کی آنت کی طرح آٹھ برس تک لٹکا رہا۔ آخرکار اگست 2022 میں اس کا فیصلہ ہوا۔ اس کیس کو فائل کرنے والے اور درخواست گزار اکبر ایس بابر کو اس کیس سے دستبردار کرانے کے لئے جنرل فیض حمید نے کیا کیا کوششیں کیں؟ یہ کوششیں ناکام کیسے ہوئیں؟ کوششیں ناکام ہونے پر درخواست گزار اکبر ایس بابر کو کن تلخ ترین تجربات اور مشکلات سے گزرنا پڑا؟ یہ بڑے چونکا دینے والے حقائق ہیں۔ اکبر ایس بابر کو فارن فنڈنگ کیس سے دستبردار کرانے کے لئے بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر جنرل فیض حمید اور ان کے جونیئرز نے کم از کم پانچ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں اکبر ایس بابر سے کیا فرمائشیں کی جاتی رہیں اور کیا لالچ دیئے گئے؟ اکبر ایس بابر نے اس پر ابھی تک لب کشائی نہیں کی لیکن دیگر مصدقہ ذرائع جو اس کہانی کے عینی شاہدین ہیں سے جو کہانی سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ جب ملک میں پی ٹی آئی دور حکومت میں ون پیج چل رہا تھا تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مستقبل میں نو مئی جیسا سانحہ ہو جائے گا۔ لہٰذا اس وقت فارن فنڈنگ کیس کو ہی بانی پی ٹی آئی اپنے اور اپنی پارٹی کی بقا کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ جنرل فیض حمید کو ہدایت کی گئی کہ اس کیس سے ان کی جان چھڑائی جائے۔ جنرل فیض حمید جون دو ہزار انیس سے نومبر دو ہزار اکیس تک ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔ لیکن دو ہزار سترہ میں وہ ڈی جی سی بن چکے تھے۔
یہ دو ہزار انیس کے اواخر کی بات ہے جب اکبر ایس بابر سے پہلی ملاقات کی گئی۔ یہ ملاقات جنرل فیض حمید کے نائب نے کی جو کم از کم دو سے ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ملاقات کا خلاصہ یہ ہے کہ اکبر ایس بابر کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ وہ فارن فنڈنگ کیس سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ ان کے مطابق یہ ملک کے مفاد میں تھا جس کے جواب میں اکبر ایس بابر کا کہنا ہوتا تھا کہ ایک ایسی پارٹی جسے بیرون ملک سے فنڈنگ ہوئی، اس کی تحقیقات سے منہ موڑنا ملک کے مفاد میں نہیں، بلکہ ملکی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ملکی سلامتی کے لئے یہ ضروری ہے کہ بھارت، امریکہ حتیٰ کہ اسرائیل سے ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ کا ایجنڈا معلوم کیا جائے۔ بجائے اس کے کہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ یوں پہلی ملاقات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔ پہلی ملاقات کی ناکامی کے بعد جنرل فیض حمید نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس ملاقات میں خود فیض حمید اور اکبر ایس دوبدو ہوئے۔ یہ ملاقات بھی دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔ جنرل فیض حمید کا بھی اکبر ایس بابر سے یہی کہنا تھا، جو ان کے نائب کہہ چکے تھے۔ یعنی فارن فنڈنگ کیس واپس لے لیا جائے، فی الحال یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ لیکن اکبر ایس بابر اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے یہی کہا کہ پی ٹی آئی کو ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ ملک کے مفاد میں نہیں۔ جب جنرل فیض حمید نے دیکھا کہ لوہا نہیں پگھل رہا تو انہوں نے پرکشش پیشکشیں شروع کر دیں۔
اکبر ایس بابر کو کہا گیا پی ٹی آئی کی حکومت میں جو وزارت چاہتے ہو، مل جائے گی، اگر سینیٹر شپ چاہئے تو وہ بھی پلیٹ میں رکھ کر دے دی جائے گی۔ حتیٰ کہ یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر اکبر ایس بابر کہیں تو وہ عمران خان کو ان کے گھر پر لے آتے ہیں تاکہ درمیان کا کوئی راستہ نکالا جا سکے۔ تاہم ان آفرز کو بھی اکبر ایس بابر نے مسترد کر دیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے ذاتی مفاد یا کسی لالچ اور وزارت کے حصول کے لئے فارن فنڈنگ کیس دائر نہیں کیا بلکہ خالصتاً پارٹی اور ملک کے مفاد میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ جس پر فیض حمید نے زچ ہوکر کہا ’’ کیا چاہتے ہو؟‘‘۔ اکبر ایس بابر نے کہا ’’ میں اپنی پارٹی تحریک انصاف کی واپسی چاہتا ہوں، جو ہائی جیک کر لی گئی ہے‘‘۔ فیض حمید نے کہا ’’ جاسکتے ہو‘‘۔ یوں یہ دوسری ملاقات بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہو گئی۔ لیکن کوششیں ترک نہیں کی گئیں۔ اس کے بعد بھی اکبر ایس بابر کو قائل کرنے کے لئے مزید تین ملاقاتیں کی گئیں۔ تاہم یہ ملاقاتیں فیض حمید کے جونیئرز نے کیں۔ لیکن ان ملاقاتوں کا نتیجہ بھی ڈھاک کے تین پات نکلا۔
اکبر ایس بابر سے ہونے والی تمام میٹنگز میں چہرے بدلتے رہے۔ لیکن ہر میٹنگ میں ایک شخصیت ضرور موجود ہوتی تھی، جس کا نام آج کل ہر جگہ پر آ رہا ہے۔ وہ کرنل ریٹائرڈ لیاقت علی تھے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ون پیج کے زمانے میں اسلام آباد میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کی پوری کابینہ چلایا کرتے تھے۔ گزشتہ برس فروری میں میڈیا میں یہ رپورٹ آئی تھی کہ کرنل لیاقت علی وسیم اور ان کے اہل خانہ برطانیہ جانے کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے اہل خانہ کو جانے کی اجازت دے دی گئی لیکن کرنل لیاقت کو روک لیا گیا۔ کرنل لیاقت کو فیض حمید کا خاص آدمی قرار دیا جاتا ہے۔ ذرائع نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ اکبر ایس بابر سے کی گئی ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات میں ایک نفسیات داں کو بھی بٹھایا گیا تھا تاکہ وہ دوران گفتگو ان کا نفسیاتی تجزیہ بھی کرتا رہے۔
جب اکبر ایس بابر کو کیس واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو کچھ عرصہ خاموشی رہی۔ پھر اکبر ایس بابر کو دھمکی آمیز کالوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں واقع اکبر ایس بابر کے گھر کے باہر عموماً ایک پراسرار گاڑی کھڑی رہتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ اکثر رات دو بجے کے قریب نامعلوم گاڑی ہوائی فائرنگ کر کے چلی جاتی تھی۔ باقاعدہ کلاشنکوف کے برسٹ مارے جاتے تھے۔ ایسے واقعات متعدد بار ہوئے۔ ایک بار ایک موٹر سائیکل گھر کے مرکزی دروازے سے ٹکرا کر چلی گئی لیکن اس سلسلے میں سب سے خطرناک واقعہ یہ ہوا کہ ایک روز اکبر ایس بابر اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ٹو میں کالج روڈ کے قریب سے گزر رہے تھے۔ یہ سنگل روڈ تھا۔ اچانک گلی سی ایک گاڑی نکلی اور اکبر ایس بابر کی گاڑی کے بالکل سامنے آ گئی۔ اکبر ایس بابر سمجھے کہ شاید ان کا آخری وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے اپنی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دی۔ یوں ان کی بچت ہو گئی۔ لیکن شاید اس طرح کے واقعات کا بنیادی مقصد جان لینا نہیں بلکہ اکبر ایس بابر کو ڈرانا دھمکانا اور ان کے اعصاب کو شل کرنا تھا کیونکہ بعد میں الیکشن کمیشن میں اس کیس کو ہی مینیج کر لیا گیا۔ جس کے بعد سوچا گیا کہ جب کیس ہی مینیج ہو رہا ہے تو پھر اکبر ایس بابر کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھانا غیر ضروری ہو گا ورنہ ایک بار اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کے ہی بعض رہنماں نے آگاہ کیا تھا کہ ان کی قتل کی سازش تیار کی گئی ہے۔ یہ پی ٹی آئی رہنما، اکبر ایس بابر سے قریب تھے۔ اس مبینہ قتل کی سازش کی تفصیلات اکبر ایس بابر اس وقت کی وزارت داخلہ، الیکشن کمیشن اور پولیس کے نوٹس میں بھی لائے تھے۔ اکبر ایس بابر کو دھمکیوں اور ڈرانے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک فیض حمید کا تبادلہ آئی ایس آئی سے بطور کور کمانڈر پشاور نہ ہوگیا۔ فارن فنڈنگ کیس سے اکبر ایس بابر کو دستبردار کرانے کے لئے صرف پرکشش آفرز اور ڈرانے دھمکانے کے حربے ہی استعمال نہیں کئے گئے بلکہ ان کے خلاف جھوٹے کیس بھی دائر کئے جاتے رہے۔ اس سلسلے میں ان پر تین مقدمات درج کئے گئے۔
تاہم اس سارے عمل میں ایک سے ڈیڑھ برس کا عرصہ لگا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ پراسرار طور پر ختم ہو گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل فیض حمید نے قانونی طور پر اس کیس کو بری طرح مینیج کر لیا تھا۔ غالباً جس کے بعد اکبر ایس بابر پر حتمی وار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کیونکہ اصل مسئلہ کیس کو کنٹرول کرنا تھا، جو پورا ہو رہا تھا۔ ایسے میں اکبر ایس بابر کے خلاف کوئی حتمی کارروائی کر کے نیا کٹا کھولنا یقیناً فضول تھا۔ تین تین ماہ تک کیس کی سماعت نہیں ہوتی تھی۔ کیس کے حقائق کا تعین کرنے کے لئے مارچ دو ہزار اٹھارہ میں ایک اسکروٹنی کمیٹی بنائی گئی جسے ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مکمل کر کے پیش کرنا تھی لیکن چار برس تک اسکروٹنی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش نہ کر سکی۔ فارن فنڈنگ کیس کے خلاف پی ٹی آئی نے تیرہ رٹ پٹیشنز دائر کیں تاکہ کیس مسلسل لٹکا رہے۔ ایک رٹ پٹیشن اوسطاً ڈیڑھ برس کھا گئی۔ آخر کار دو اگست دو ہزار بائیس کو الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنا دیا، جس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی پر بیرون ملک سے ممنوعہ فنڈنگ لینا ثابت ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے دو ہزار چودہ میں دائر کیا تھا، جو آٹھ برس تک الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا ہے۔ تحریک انصاف نے کبھی الیکشن کمیشن کے دائرہ سماعت کے اختیار کو چیلنج کیا اور کبھی الیکشن کمیشن کے کسی حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر حاصل کر لیا گیا۔ غرض یہ کہ تاخیری حربوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔ آٹھ برس کے دوران کیس کی ایک سو سے زائد سماعتیں ہوئیں۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے احکامات کے خلاف مختلف اعلیٰ عدالتوں میں پینتیس کے قریب التوا کی درخواستیں دائر کیں۔ الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے چھیانوے سماعتیں کیں۔ تیرہ رٹ پٹیشن دائر کی گئیں۔ تماشا تو یہ ہے کہ اس ساری بکواسیات میں سسٹم کا عمل دخل رہا اور بااختیار ہستیاں اپنی مذموم کوششیں میں کامیاب ہوتے رہے۔