ColumnTajamul Hussain Hashmi

ان بیانیوں سے نکل پائیں گے؟

ان بیانیوں سے نکل پائیں گے؟
تجمّل حسین ہاشمی
جہاں تک سیاسی جماعتوں کے بیانوں کا تعلق ہے تو ان جماعتوں کی کارکردگی، فیصلہ سازی، انصاف کی دستیابی اور ان کے لکھے ہوئے منشور سب کے سامنے ہیں۔ پچھلے 40سال سے جمہوریت اور آمریت کے کرتا دھرتائوں کے فیصلے بھی قوم کے سامنے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے ادارے جن کی تعمیر کیلئے کئی سال لگے، پیسہ اور وقت کے ضائع ہونے کا کوئی حساب نہیں ، آج وہ برائے فروخت ہیں، کوئی لینے والا نہیں۔ کرپشن والوں کا احتساب نہیں، آج بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ شکوہ عدالتوں سے ہے، کرپشن اور وکٹری کا نشان سب بھول گئے ہیں۔ ایک خط تو گیلانی صاحب سے لکھوا نہ سکے۔ یہ ہمارے نظام کی بولتی تصویر ہے۔ تحریک انصاف کے بانی کا خیال ہے کہ اس کو عوامی حمایت حاصل ہے، اس حمایت کو لیکر وہ اس نظام کو بدل لے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ خان کی یہ بھول ہے۔ قوم پر خان کا رومانس جلدی اتر جائے گا۔ آئے روز کوئی نہ کوئی سیاسی محاذ کھول کر حکومت کی سامنے کھڑے ہیں۔ وہ حکومتی منڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے کیوں کہ ان کے مطابق منڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ اس میں سیاسی جماعتیں خوب مہارت یافتہ ہیں، کبھی بھی ایک دوسرے کو پانچ سال پورے کرنے نہیں دیئے۔ پیپلز پارٹی کو ماضی میں محب وطنی جیسے سنگین الزامات کا سامنا رہا۔ قیادت کو کئی کئی سال قید میں رکھا گیا۔ ایک دوسرے کو گرانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ بیرونی چینل استعمال کئے گئے۔ مذہبی وار بھی کئے گئے۔ ہمارے ہاں اگر حکومتی ترجیحات میں تعلیم ہوتی تو یقیناً سیاسی نعروں اور جھوٹے بیانیوں سے جان بخشی مل چکی ہوتی۔ فیک نیوز سے جان بخشی ہو جاتی لیکن ایسا ان کو منظور نہیں ہے اس لئے ہر دفعہ انتخابات مشکوک نہیں ہوتے، چار حلقوں کے احتساب نے ملکی سیاست تبدیل کردی۔ بنیادی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید خطرناک صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ چند روز پہلے پورا ملک جام تھا، ایک طوفان برپا تھا، ایسا لگ رہا تھا پتہ نہیں کیا ہو جائے گا، کون سا طوفان آ جائے گا۔ حکومت نے ملک بند کر دیا۔ ناقص فیصلہ سازی اور کم عقلی کی ذمہ دار حکومت ہے۔ اب دوبارہ نئے محاذ کی ڈیڈ لائن ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے سول نافرمانی اور ترسیلات زر کی کمی جیسے بائیکاٹ کے اعلان سے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا لیکن اس وقت حکومت کو عوامی سپورٹ کی بے حد ضرورت ہے اور حکومتی وزیر روزانہ پریس کانفرنس کرکے مزید افراتفری پیدا کر رہے ہیں۔ حکومت خود سے خان کے اعلانات کا وزن بڑھا رہی ہے۔ حکومت اس وقت خود ہی اپوزیشن بنی ہوئی ہے، اس وقت حکومت کو قلم کاروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کو متحرک کرنا چاہئے تھا لیکن وہ تو ان کیخلاف صف بندی کر چکی ہے۔ لوگوں کو آگاہی دینی چاہئے نہ کہ خوف پھیلا کر کنٹرول کیا جائے۔ ایسی مہم سے حکومت اپنا نقصان کرے گی۔ اگر قومی نقصان کی بات کریں تو عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ سیاسی لیڈر ہی ملکی ترقی کے دشمن ہیں۔ قومی قرضوں کا ذمہ دار حکمران طبقہ ہے، جن کا پروٹوکول ہی ختم نہیں ہوتا۔ ویسے قومی ذمہ داری یہی بنتی ہے ایسی مہم سے دور رہا جائے جس سی ریاست کمزور ہو۔ احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے لیکن بائیکاٹ، سول نافرمانی اور ترسیلات زر جیسی تحریکیں جمہوری نہیں بلکہ عوامی نقصان ہے۔ اپنے ہی ملک میں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کوئی محب وطنی نہیں۔ یہ تحریک ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ ملکی جی ڈی پی کا مطلب مالیاتی سال کے دوران کسی ملک کی حدود میں پیدا ہونیوالی تمام اشیاء اور خدمات کی بازار میں موجود قیمت (جی ڈی پی) خام ملکی پیداوار کہلاتی ہے۔ تھوڑا غور کی ضرورت ہے، اپنے ہی ملک کیخلاف بائیکاٹ ملکی پیداوار میں کمی کا باعث ہوگی۔ بانی پی ٹی آئی کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے عمل سے تاجر برادری خوف زدہ ہوگئی ہے۔ فیکٹریوں میں پیداوار کم ہوگئی۔ جب پیداوار کم ہوگی تو ملکی معیشت پر دبائو بڑھے گا، حکومت پر دبائو کا مطلب عوام پر دبائو ہے۔ اس طرز عمل سے نقصان 60فیصد غریب کا ہے، جس کو پہلے ہی روزگار کا مسئلہ ہے۔ اس کے گھر میں راشن نہیں، بجلی کے بلوں نے خودکشی پر مجبور کیا ہوا ہے۔ اپنے ہی ملک کی پیداوار کے بائیکاٹ اور سول نافرمانی جیسی تحریک کو کسی صورت سپورٹ نہیں کیا جانا چاہیے۔ لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح کی تحریکوں سے عوامی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان کو روزگار نہیں ملے گا، کیا صحت کی سہولیات میسر ہو جائیں گی؟ کیا انصاف میسر ہوگا؟ یقیناً یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ حکومت کو بھی مذاکرات سے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ حکومت مخالف مہم سے لگتا ہے کہ عمران خان کو غریب کی فکر نہیں بلکہ مقدمات سے جان بخشی اور اقتدار کا حصول ہے، میکائولی کے نظریہ کے مطابق سیاست اور اخلاقیات دو مختلف چیپٹر ہیں۔ سیاست میں اخلاقیات کا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن ہم اسلامی ریاست ہیں، ہمارے ہاں اخلاقیات کا کردار اہم ہے۔ لیکن ہمارے لیڈر میکائولی کے نظریات کے پیروکار ہیں، ان کے ہاں جھوٹ، فریب، قومی لوٹ مار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی ذاتی دولت، کاروبار منافع بخش ہیں، کچھ دو کچھ لو اور جانے دو، بس حکومت ہماری ہونی چاہیے۔ ہمارے مفادات کا تحفظ ہونا چاہئے، بلکہ جو مرضی ہو تخت ہمارے پاس رہنا چاہئے۔ ایسی سوچیں سیاسی جماعتوں میں رچ بس گئی ہیں۔ آج ہر تاجر اسمبیلوں میں بیٹھا ہے اور اپنی مرضی سے ملکی تقدیر کو موڑ رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button