ہاتھ سے پھسلتا ہوا شام: بشار حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف باغیوں کی پیش قدمی میں تیزی آ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں باغیوں نے حما اور حلب جیسے اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے، جبکہ حمص ان کا اگلا ہدف ہے۔ اس پیش رفت سے شامی حکومت کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہو گئے ہیں، اور ہزاروں افراد متوقع جنگ کے خوف سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔
موجودہ حالات اور حکومتی مشکلات
شامی فوج وسائل اور حوصلے کی کمی کا شکار ہے۔ تنخواہوں میں حالیہ اضافہ اور روس کی فضائی مدد بھی باغیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ روس، جو ماضی میں بشارالاسد کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر چکا ہے، اب یوکرین جنگ کی وجہ سے محدود ہو چکا ہے۔ دوسری جانب ایران اور حزب اللہ بھی ماضی کی طرح سرگرم نظر نہیں آتے، جس سے حکومت کی پوزیشن مزید کمزور ہو رہی ہے۔
بشارالاسد کے ممکنہ آپشنز
1. اتحادیوں کی مدد کو یقینی بنانا:
بشارالاسد کی حکومت کو اپنے بین الاقوامی اتحادیوں، خاص طور پر روس اور ایران، کو شام میں مزید فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔ روس کے بحری اڈے طرطوس اور خطے میں ایران کے سٹریٹجک مفادات اسد حکومت کو کچھ مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
2. فوجی اصلاحات:
شامی فوج میں مورال کی کمی اور وسائل کی محدودیت کو دور کرنے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگرچہ تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہوگا۔ مزید موثر حکمت عملی اور بہتر کمانڈ اینڈ کنٹرول ضروری ہے۔
3. باغیوں میں اختلافات کو ہوا دینا:
ماضی میں حکومت باغیوں کے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھا چکی ہے۔ باغی گروہوں، خاص طور پر ہیئت تحریر الشام، کردش گروہوں، اور دیگر تنظیموں کے درمیان اختلافات کو مزید بڑھانے کے لیے خفیہ اور سفارتی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔
4. اقلیتی برادریوں کی حمایت کو مضبوط کرنا:
شامی حکومت کے لیے اقلیتی برادریوں کی حمایت ایک اہم اثاثہ ہے، جو جہادی تنظیموں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔ اس حمایت کو بڑھانے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں لچک دکھائی جا سکتی ہے۔
5. عالمی سطح پر حمایت حاصل کرنا:
شام کے بحران میں امریکہ اور مغربی طاقتیں زیادہ متحرک نہیں رہیں، لیکن عالمی سطح پر تعلقات بہتر بنا کر انسانی امداد اور سیاسی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔
مستقبل کی صورتحال
اگر حمص باغیوں کے قبضے میں چلا جاتا ہے، تو یہ نہ صرف بشارالاسد حکومت کے لیے ایک بڑی شکست ہوگی بلکہ طرطوس میں روسی بحری اڈے کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ ایسے میں بشارالاسد کی بقا کا انحصار صرف فوجی طاقت پر نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی اور اتحادیوں کی مضبوط مدد پر ہوگا۔
صدر بشارالاسد کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے کہ وہ کس حد تک اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے۔