
جگائے گا کون؟
تحریر سی ایم رضوان
پی ٹی آئی کے 24نومبر کے احتجاج کے دوسرے روز ڈی چوک میں جو کچھ ہوا یا نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کے احتجاج کار کون تھے۔ مبینہ طور پر فائرنگ سے مرنے والے کون تھے۔ فائرنگ ہوئی یا نہیں۔ ان تمام سوالات کے جوابات ہم تمام پاکستانیوں کے ہاں یکسر مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ کچھ تو اتفاق رائے ہونا چاہیے تھا کسی ایک بات یا رائے پر تو ہمیں متفق ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ خبروں کے اتنے ذرائع اور سوشل میڈیا جیسی جدید سہولیات کے باوجود ہم میں سے اکثر شک اور بے یقینی کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ وجہ ایک ہی ہے کہ ہم متضاد سیاسی بیانیوں کی قید میں بند ہیں ہم جن بیانیوں کے قائل ہیں ان سے باہر نکل کر سوچنا اور بولنا ہی نہیں چاہتے۔ نتیجتاً ہم تقسیم اور بدترین تضاد کا شکار ہیں اور کوئی تدبیر ایسی نظر نہیں آ رہی جو ہمیں اس تضاد سے نکال کر اتفاق کا قائل کر دے اس لئے یہ کہنا ہی بہتر ہو گا کہ ہم بیانیے کی جنگ میں سب مارے گئے ہیں اور متضاد سیاست جیت گئی ہے۔
2014ء کے بعد سے پاکستان کی سیاست کافی حد تک مختلف بیانیوں کی جنگ بن چکی ہے۔ یہ پاکستان کے لئے کوئی نئی یا عجیب بات نہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ جنگیں اتنی شدید نہیں تھیں جتنی کہ یہ اب ہیں۔ اس کی اہم وجہ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
2011ء سے لے کر آج تک ان جنگوں میں صرف ایک فریق مستقل ہے اور وہ ہیں پاکستان تحریک انصاف کے بانی۔ زیادہ تر اوقات ان کے حریف مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ہوتے ہیں لیکن اپریل 2022ء میں بانی پی ٹی آئی کی اقتدار سے بیدخلی کے بعد سے اس جنگ میں ایک اور فریق براہ راست شامل ہوا ہے اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ۔ حالانکہ بانی پی ٹی آئی خود بھی اقتدار سے نکالے جانے سے پہلے تک پرو اسٹیبلشمنٹ تھے کیونکہ 2011ء سے کم از کم 2021ء تک اسٹیبلشمنٹ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ تھی لیکن انہوں نے اس وقت اپنی حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دیا جب انہوں نے ’’ رجیم چینج‘‘ کے بڑے منصوبے پر اسٹبلشمنٹ کو موردِالزام ٹھہرایا جس میں ہم نے دیکھا کہ ان کی حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی لیکن اس وقت تک کامیابی سے اپنے بیانیے کو مختلف حربوں سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر پھیلانے میں پی ٹی آئی نے مہارت حاصل کر لی تھی۔ 2021ء کے اواخر تک ان تمام حربوں میں اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ یہ سب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری سے پہلے کی بات ہے۔ تاہم جب پی ٹی آئی اپنے بیانیے میں جنرل عاصم منیر کو نشانہ بنانے لگی تو اسٹیبلشمنٹ سٹپٹا گئی وہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ پی ٹی آئی کو حکمت عملی میں مہارت حاصل کرنے کے لئے جو’’ تربیت‘‘ ملی تھی وہ مبینہ طور پر اس وقت کے فوج کے میڈیا ونگ نے ہی فراہم کی تھی لیکن ہر وقت ہر فارمولا نہ تو کارگر ہوتا ہے اور نہ ہی جائز۔ لیکن بدقسمتی پاکستان اور پاکستانیوں کی کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی سیاست کا بنیادی محور اسی نکتہ کو بنایا ہوا ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی کا یہ بیانیہ بہت سے پاکستانیوں بشمول ملٹری، عدلیہ اور میڈیا کے کچھ افراد میں اس وقت یعنی عدم اعتماد کے وقت تو کامیابی سے سرایت کر گیا۔ لیکن وہ کیا بیانیہ تھا جس نے بانی پی ٹی آئی کو مقبول بنایا اور کچھ حوالوں سے ملک کے شہری اور نیم شہری علاقوں بالخصوص خیبرپختونخوا اور شمالی و وسطی پنجاب کے لوگوں کی نظروں میں انہیں ایک مسیحا بنا دیا؟ ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ بیانیہ تھا کرپشن کے خلاف بڑھکیں اور مذہبی ٹچ۔ مگر وہ خود ذاتی طور پر مذہب بیزار اور کرپشن میں ناک تک ڈوبے ہوئے ہیں۔
2011ء سے 2018ء میں وزیراعظم بننے تک بانی پی ٹی آئی کا بیانیہ ایک پُرکشش اور کرپشن نہ کرنے والی شخصیت کا تھا جنہیں بیرون ملک بھی بطور لیڈر خوب پسند کیا جاتا تھا۔ وہ دنیائے کھیل کے سابق اسٹار تھے جنہوں نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو 1992ء کا ورلڈ کپ جتوایا تھا اور اب وہ بطور سیاست دان ملک کی قیادت کے لئے تیار تھے۔ اس بیانیے میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو مکمل طور پر کرپٹ جماعتوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس میں بانی پی ٹی آئی کو نیک ( لیکن خوش شکل) شخص کے روپ میں دکھایا گیا جو کرپشن کے خلاف ’’ جہاد‘‘ کی قیادت کر رہے تھے۔ پھر اپنے دورِ حکومت ( 2018ء سے 2022ء تک) میں جب بانی پی ٹی آئی مختلف محاذوں جیسے معیشت اور خارجہ پالیسی میں لڑکھڑانے لگے تو متعلقہ بیانیے میں ’ اسلامی‘ پہلوئوں کو بڑے پیمانے پر نمایاں کیا گیا۔ اس کے باوجود ان کی برطرفی تک بیانیہ وہی رہا جو ’ ترقی کا بیانیہ‘ کہلایا گیا۔ بلاشبہ پی ٹی آئی نے اپنی ’ لالچ‘ کی بنا پر اپنے سیاسی حریفوں کو ملک کے لئے وجودی خطرہ بنانے کا بیانیہ اپنایا لیکن یہ زیادہ تر بانی پی ٹی آئی کے ’ وژنری‘ ہونے کے گرد گھومتا تھا کہ جن کی پالیسیوں سے پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے طاقتور پاسپورٹس میں شامل ہو سکتا تھا اور پاکستان ایک ایسے ملک میں تبدیل ہو جاتا کہ جہاں متعدد غیر ملکی شہری نوکریوں کی غرض سے آتے۔ اس کے علاوہ تخلیقی پروگرامز بھی شروع کئے گئے جیسے مرغیوں کی افزائش کا پروگرام جس کے ذریعے مرغیاں لاتعداد انڈے دینے لگیں گی۔ بیانیہ اس کے گرد بھی گھومتا تھا کہ بانی پی ٹی آئی فلسفی و شاعر علامہ محمد اقبالؒ کے کام اور اسلام کے حوالے سے گہری واقفیت رکھتے ہیں جو پاکستان کو حقیقی ’ اسلامی فلاحی ریاست‘ بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ لیکن ظاہر ہے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کیونکہ سیاسی بیانیے ضروری نہیں کہ حقیقت پر مبنی ہوں بلکہ یہ وسیع پیمانے پر حقیقت کے کچھ خیالات پر بھی مبنی ہوتے ہیں۔ بیانیوں کا اعداد و شمار یا تلخ حقائق سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ نظریات اور جذبات پر زیادہ منحصر ہوتے ہیں۔ بیانیہ ایک مخصوص عالمی نظریے کے فریم ورک کے تحت کام کرتا ہے۔ جیسے عالمی نظریہ جتنا وسیع پیمانے پر پھیلا ہوگا، بیانیہ جتنا زیادہ مقبول ہوگا اتنے ہی زیادہ لوگ اسے تسلیم کریں گے۔ تاہم جب یہ واضح ہو چکا کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت سخت حالات سے نبرد آزما ہے تو ان کا بیانیہ بھی کمزور پڑنے لگا۔ اسے سہارا دینے کے لئے مزید اسلامی پہلوئوں کو شامل کیا گیا لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ بانی پی ٹی آئی کا ترقی کا بیانیہ غیر حقیقی وعدوں پر مبنی تھا اور انہوں نے متوسط طبقے کو خوشحال بنانے کے سنہرے خواب دکھائے تھے جن میں وہ ناکام رہے۔ لیکن بانی پی ٹی آئی نے جب اقتدار گنوا دیا تو انتہائی دلچسپ پیش رفت ہوئی۔ انہوں نے اپنے بیانیے کو دوبارہ تشکیل دیا۔ اس بار وہ ترقی کے بیانیے کے بجائے سیاسیات کے مطابق، ’ زوال کا بیانیہ‘ بنا۔
ماہر سیاسیات رابرٹ رالسٹن اسے ’ انحطاط‘ کہتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ زوال عموماً ان عناصر کی وجہ سے آتا ہے جوکہ موجودہ حکومت یا قیادت کے خلاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپوزیشن بروکرز کہا جاتا ہے جو مختلف گروہوں اور افراد کو متحد کرتے ہیں۔ یہ قوم کو درپیش مسائل پر اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ رابرٹ رالسٹن یہ بھی کہتے ہیں کہ منفی واقعات یا حالات کی بدولت زوال کا یہ نظریہ مستحکم ہوتا ہے۔ زوال کا یہ بیانیہ بڑے پیمانے پر منفی نظریات کو اکٹھا کر کے بنتا ہے۔ اگرچہ ترقی کا بیانیہ تو ایک بہترین خوشحال مستقبل کا وعدہ کرتا ہے لیکن زوال کا بیانیہ اس کے برخلاف تاریک مستقبل کا اشارہ دیتا ہے۔ اقتدار سے بیدخلی کے بعد بانی پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کے زوال کی کہانیاں عوامی سطح پر شیئر کیں۔ انہوں نے اس کے ذریعے بتایا کہ ان کی بیدخلی بحیثیت قوم پاکستان کی تباہی کی علامت ہے۔ اس بیانیے میں بعد ازاں سری لنکا کی معاشی بدحالی کی مثالیں دی جانے لگیں۔ بانی پی ٹی آئی کے خیال میں پاکستان بھی اسی جانب گامزن تھا۔ فروری 2023ء میں جب اٹلی جانے والے بہت سے پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی کو حادثہ پیش آیا تو بانی پی ٹی آئی نے بتایا کہ معاشی دیوالیہ، انارکی اور سول جنگ کے دہانے پر کھڑے پاکستان سے جانے کے لئے لوگ مضطرب ہیں۔ بدقسمتی سے 1990ء کی دہائی سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں متعدد پاکستانی سمندر کی نذر ہو چکے ہیں لیکن 2023ء کے سانحے کو پی ٹی آئی نے اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا اور اسے ایک ایسے واقعے کے طور پر دکھایا کہ جیسے اس کا بانی پی ٹی آئی کی برطرفی سے تعلق ہو۔ اس نئے بیانیے نے بانی پی ٹی کے مایوس سپورٹرز میں گویا نئی روح پھونک دی۔ اس بیانیے کے مطابق عمران خان وہ واحد لیڈر بن گئے جو ملک کو زوال سے بچا سکتے تھے۔
اس سے پہلے مئی 2023ء میں پی ٹی آئی کارکنان اور رہنما سڑکوں پر آئے اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے لگے۔ اس سلسلے میں گرفتاریاں ہوئیں لیکن متعدد عدالتوں نے تکنیکی وجوہات کی بنا پر ان افراد کو سزا دینی سے انکار کر دیا۔ تاہم ایک سال بعد جب اسیٹبلشمنٹ نے بانی پی ٹی آئی کے حامی اور سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا تو اس سے یہ اشارہ ملا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب اتنا مواد ہے کہ وہ بلآخر جوابی بیانیہ تشکیل دے چکے ہیں اور 9مئی کے فسادات کو مسلح افواج میں بغاوت کو ہوا دینے کی وسیع سازش کے طور پر استعمال کریں گے۔ اس معاملہ کے بعد پی ٹی آئی، عمران خان، چند سابق ملٹری افسران، عدلیہ اور میڈیا میں ان کے مبینہ سہولت کاروں کو فکر مند ہونا چاہیے تھا لیکن اس خوف کی بناء پر وہ مزید اسی راہ پر چلنے کو ہی اپنی عافیت سمجھنے لگے جو کہ پہلے پٹ چکا تھا یہاں تک کہ بانی پی ٹی آئی نے فائنل کال دے دی۔ مقصد یہی تھا کہ ملک میں انتشار اور بے یقینی کا دور قائم ہو جائے اب اگر انہیں یا ان کے سہولت کاروں کو ریاست کا دشمن قرار دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔