پاکستان

قبائل کے اہم مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا، آمدورفت محفوظ بنانے کے لیے گرینڈ جرگہ آئندہ دو روز میں متوقع

خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے وہاں قائم قبائل کے مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد اور راستے محفوظ بنانے کے لیے 65 نئی چوکیاں قائم کرنے اور علاقے میں فرنٹیئر کانسٹبلری تعینات کرنے کے فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت جو اہم مورچے تھے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے خالی کرا لیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا صورتحال پر مکمل قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں کرم میں امن کے قیام کے لیے فیصلے کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں قائم تمام مورچے مسمار کیا جائیں گے۔

یاد رہے کہ کابینہ کو بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ کرم میں 21 نومبر سے شروع ہونے والے حملوں اور جھڑپوں اور مختلف واقعات میں 133 افراد ہلاک اور 177 زخمی ہوئے ہیں۔

ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں قبائل نے اپنے اپنے مورچے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے مخالفین پر فائرنگ کی جاتی ہے۔

ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نےدعویٰ کیا کہ تمام سٹریٹجک مورچے خالی کر لیے گئے ہیں ۔ جاوید اللہ محسود نے بتایا کہ اپر کرم سے دیگر شہروں تک جانے والے راستوں پر آمدورفت کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس بارے میں ایک گرینڈ جرگہ آئندہ دو روز میں متوقع ہے۔

یاد رہے کہ جنگ بندی کے باوجود اب تک کرم میں شاہراہوں پر سفر شروع نہیں کرایا جا سکتا جس وجہ سے علاقے میں لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی صدارت میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کرم میں امن کے قیام کے لیے فیصلے کیے گئے ہیں۔

کابینہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ کرم میں شاہراہوں کو محفوظ بنانے کے لیے نہ صرف 65 نئی چوکیاں قائم کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ علاقے میں فرنٹیئر کانسٹبلری کی پلاٹون کی تعیناتی کے لیے وفاق سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

کابینہ اجلاس کے بارے میں جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مسئلے کے پر امن اور پائیدار حل کے لئے گرینڈ جرگہ تشکیل دیا گیا ہے اور یہ جرگہ علاقے میں امن کی مکمل بحالی تک وہاں قیام کرے گا۔

کابینہ اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ ’کرم میں کچھ عناصر فریقین کے درمیان نفرت پھیلا کر حالات کو خراب کر رہے ہیں،جنھیں دہشتگرد قرار دیکر ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

کابینہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے انھیں شیڈول فور میں ڈالا جائے گا۔ مقامی سطح پر لوگوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ بھی اکٹھا کیا جائے گا۔ کرم میں جھڑپوں کے دوران شہید ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کو مالی امداد فراہم کیا جائے گی اورعلاقے میں ہونے والے املاک کے نقصانات کے لئے متاثرین کو معاوضے دیے جائیں گے۔‘

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ علاقے میں بد امنی کی وجہ سے دوسرے اضلاع میں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی فوری اور باعزت واپسی عمل میں لائی جائے گی۔ اس سارے عمل کی حکومتی سطح پر مانیٹرنگ کے لیے صوبائی وزیر قانون، مشیر اطلاعات اور متعلقہ پارلیمنٹیرینز پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

کابینہ میں کہا گیا ہے کہ امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر کرم سمیت تمام ضم اضلاع اور دیگر حساس اضلاع کی سول انتظامیہ کو بلٹ پروف/بم پروف گاڑیاں فراہم کی جارہی ہیں۔

اس اجلاس میں کہا گیا ہے کہ کرم کا مسئلہ دہشتگردی نہیں، بعض عناصر دو مسلکوں کے لوگوں میں نفرتیں پھیلا رہے ہیں اور مقامی عمائدین ایسے شر پسند عناصر کی نشاندہی میں تعاون کریں۔

یاد رہے کہ کرم میں حالیہ دنوں میں 21 نومبر سے اس وقت حالات کشیدہ ہو گئے تھے جب لوئر کرم میں سیکیورٹی کانوائے میں گاڑیوں پر نا معلوم افراد نے حملہ کر دیا تھا جس میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس واقعہ کے بعد اگلے روز مقامی لوگوں کے مطابق اپر کرم کے علاقے علیزئی سے ایک کشکر نے لوئر کرم کے علاقے بگن پر حملہ کر دیا تھا جس میں ابتدائی طور پر 32 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس کے بعد اس علاقے میں کرم کے مختلف علاقوں میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس میں 133 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

کرم میں 12 اکتوبر کو بھی کانوائے میں شامل گاڑیوں پر حملہ ہوا تھا جس میں ہلاکتیں ہوئی تھیں اور علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔

جواب دیں

Back to top button