ذمہ داری کے تعین کا فقدان

تجمل حسین ہاشمی
اس تحریر کے بعد 25کروڑ میں سے 24کروڑ عوام کو یقین آ جائے گا کہ ذمہ دار فیصلہ ساز ہی ہیں، بھوک، مہنگائی اور بے حیائی، ننگے پن کے ذمہ دار یہی تخت نشینی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے بنا کر اپنی نااہلی، کارکردگی کو چھپا کر عوام کو گمراہ کرنے والے یہی اداکار ہیں۔ جنہوں نے اقتدار کے حصول میں معاشرتی، سماجی رویوں کو مجروح کر دیا ہے۔ اس رپورٹ کے بعد سب کو یقین ہو جانا چاہئے کہ دھرتی کمزور نہیں، ان کے حاکم بددیانت نکلے ہیں۔ صحافی و مصنف سجاد اظہر اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ تربیلا ڈیم میں 635ارب ڈالر کا سونا موجود ہے۔ پاکستان میں سونے کے پہاڑ موجود ہیں، یہ سو فیصد سچ ہے۔ یہ رپورٹ سنہ 2020میں حکومت کو جمع کرائی گئی تھی۔ ان چار سال میں آج بھی یہ رپورٹ وزیراعظم کی ٹیبل پر پڑی ہے۔ اس وقت ملک اربوں ڈالر کے بیرونی قرضوں کا مقروض ہے۔ ملک چلانے کیلئے مزید آئی ایم ایف کی منت سماجت کر رہا ہے۔ سنہ 2016 میں پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے نامور ماہرین ارضیات کا ورکنگ گروپ تشکیل دیا۔ اس گروپ کے سربراہ عالمی شہرت یافتہ جیالوجسٹ ڈاکٹر پروفیسر قاسم جان اور اسی گروپ کے ممبر نامور جیو سائنٹسٹ محمد یعقوب شاہ بھی ہیں۔ شاہ صاحب جو پچھلے 30سال سے دریائے سندھ میں موجود سونے پر تحقیق کر رہے ہیں۔ چار عدد تفصیلی رپورٹس کی جلدیں حکومت کو جمع کرا چکے ہیں۔ ان تحقیقی رپورٹس کی مالی اور ٹیکنیکل سپورٹ آسٹریلوی حکومت کی طرف سے کی گئی۔ ان رپورٹس میں شمالی علاقہ جات کے 72971مربع کلو میٹر میں سے 50ہزار مربع کلومیٹر علاقے کا سروے کیا گیا جبکہ باقی علاقہ سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے، 50ہزار کلومیٹر علاقے میں سونے، پلاٹینیم، چاندی، تانبا، شیشہ، زنک، نکل اور دوسری دھاتوں کے ذخائر کی ممکنہ موجودگی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ دھاتیں پہاڑوں سے بہہ کر دریائے سندھ میں آ رہی ہیں، 2020ء کی حکومت نے جب شاہ صاحب سے ان ذخائر کی مالیت سے متعلق پوچھا تو محمد یعقوب شاہ نے کہا کہ یہ جاننے کیلئے مزید سروے کی ضرورت ہے، ان ذخائر کی مالیت اربوں نہیں کھربوں ڈالر ہوسکتی ہے۔ اس وقت کی حکومت کی طرف سے پوچھا گیا کہ ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جا رہا تو انہوں نے کہا کہ ہر حکومت کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں، اگر حکومت فائدہ لینا چاہتی ہے تو ہماری ان رپورٹس پر عمل درآمد کرے۔ ہمارے ہاں فیصلہ سازوں کے موڈ اور منشا پر فیصلے ہوتے ہیں۔ کبھی بھی ملکی مفاد ان کی ترجیحات میں نہیں رہا۔ سجاد اظہر کے مطابق پاکستانی کنسورشیم نے گزشتہ ہفتوں میں حکومت کے اعلیٰ حکام کو بریفنگ دی، جس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ تربیلا ڈیم کے اندر جو سونا جمع ہوچکا ہے اس کی مالیت 635ارب ڈالر ہے۔ تربیلا ڈیم میں جو مٹی آتی ہے وہ 10ارب میٹرک ٹن ہے جس میں سالانہ 20کروڑ میٹرک ٹن کا اضافہ ہورہا ہے، فی ٹن مٹی
میں کئی گرام سونا موجود ہے، اسی طرح 10ارب ٹن مٹی سے 15ارب گرام سونا نکالا جاسکتا ہے۔ اس سے سونے کی برآمدگی کا ہدف اگر سو فیصد نہ بھی ہو تو 80فیصد تو یقینی ہے۔ اسی طرح تربیلا ڈیم سے 12000ٹن سونا نکالا جاسکتا ہے۔ اس وقت سونے کی فی ٹن قیمت 7۔8کروڑ ڈالر ہے۔ تربیلا ڈیم سے سونے نکالنے کی جو لاگت آئے گی وہ کل مالیت کا 20فیصد ہوگا۔ ڈیم سے سونا نکالنے کیلئے دنیا بھر میں ڈریجنگ، مشینری موجود ہے۔ ایک دریجنگ یونٹ ماہانہ 216کلوگرام سونا نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سونے کی سالانہ مالیت 15کروڑ ڈالر ہوسکتی ہے۔ اس طرز کی کئی رپورٹس پبلش ہوتی رہیں، کھربوں ڈالر کے ذخائر کی موجودگی ہے لیکن حکومتی موقف ہے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں جس کی وجہ سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ ایسی رپورٹ کے بعد ہر ذی شعور انسان اپنی بے بسی کا ذمہ دار حکومت کو ہی ٹھہرائے گا کیوں اربوں روپے کی لوٹ مار، مہنگی گاڑیاں، شاہی پروٹوکول اور بیرونی دوروں پر لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ ان کے کاروبار ترقی میں ہیں اور سرکاری ادارے نقصان میں ہیں۔ زرعی زمینوں پر رہائشی سوسائٹیاں بنا کر اربوں روپے کمائے اور اب یہ معدنی ذخائر پر ڈاکے ڈالیں گے ۔ ایران گیس پائپ لائن پر ڈاکہ ، فور کے جیسے فلاح منصوبے پر سیاست معیشت کی بحالی ان کی ترجیحات میں ابھی تک شامل نہیں، جنہوں نے احتساب کرنا تھا وہ سیاسی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ، سرکاری انسٹیٹیوشن کو کمزور کیا گیا اور اب عسکری ادارے کو الجھا رہے ہیں، اس کشمکش سے نجات صاف شفاف انتخابات اور حکومتی پیریڈ کا مکمل ہونا ہے، بروقت انصاف اور میرٹ پر فیصلوں کی عملی داری ہی معاشی صورتحال میں بہتری ممکن ہے، ان کے بغیر پلاننگ وقت کا ضیاع ہوگی ۔