لاہور کے ساہوکار ہندو

احمد نوید
میں ایک کتاب لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس کا نام بتانا ابھی مناسب نہیں، ورنہ کوئی شریف آدمی یہ آئیڈیا چرا لے گا اور میری کتاب سے پہلے ان صاحب کی کتاب مارکیٹ میں دستیاب ہوگی، بہرحال جو کچھ لکھنے جا رہا ہوں۔ لاہور سے جڑا ہوا ہے۔ جس کا کچھ حصہ آپ کے ساتھ شیئر کرتا رہوں گا۔
زبانِ خلق کے مطابق لاہور کو رام جی کے بیٹے لَو نے جو وشنو کے اوتار اور ہندوئوں کی عظیم رزمیہ کہانی رامائن کے مرکزی کردار ہیں، نے آباد کیا تھا۔ جسے کبھی لوہا پوری لَو کا شہر کہا جاتا تھا، اور اس کے جڑواں بھائی کش نے لاہور کے جڑواں شہر قصور کو آباد کیا تھا۔
لاہور کے آغاز کا تعلق دیوی دیوتائوں کے زمانے سے ہو یا نہ ہو، یہ حقیقت ہے کہ یہ علاقہ مسلمانوں کے قبضے سے پہلے ہندو حکمرانوں کی ریاست تھا۔ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ لاہور ایک قدیم ہندو کالونی تھی۔ آج اس لاہور میں ہندو مذہب کے صرف دو مندر ایک کرشن مندر راوی روڈ پر اور دوسرا والمیکی مندر نئی انارکلی میں بمشکل زندہ ہیں۔
اے حمید صاحب نے لاہور کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ بقول اے حمید صاحب 1947ء کے قریب جب آزادی کا وقت قریب آیا تو لاہور میں 3لاکھ ہندو اور سکھ آباد تھے۔ اگست 1947ء تک یہ تعداد گھٹ کر صرف 10ہزار رہ گئی۔ مہینے کے آخر تک صرف 1ہزار باقی بچے۔ اکثریت بھارت منتقل ہو گئی۔ بہت سے مارے گئے، لیکن ان کی تعداد کا درست اندازہ نہیں۔
لاہور کے کچھ محلے مکمل طور پر ہندو اور سکھ تھے۔ گمٹی بازار مکمل ہندو محلہ تھا۔ شہر کی فصیل سے باہر کے علاقوں میں بھی زیادہ تر ہندو آبادی والے علاقے شامل تھے، جیسے کرشن نگر، سنت نگر، رام گلی، نسبت روڈ، قلعہ گجر سنگھ، شاہ عالمی، گوالمنڈی اور راج گڑھ جہاں کامنی کوشل بھی رہتی تھیں۔ بیڈن روڈ اور نکلسن روڈ کی آبادی ہندو، سکھ اور مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اچھرہ اور ماڈل ٹائون اس وقت کے شہر سے باہر تھے۔
اچھرہ، جو ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا، کو اصل لاہور مانا جاتا تھا۔ کہتے ہیںکہ شہر کی بنیاد راجہ رام چندر جی کے بیٹے لہو نے یہاں رکھی تھی۔ ماڈل ٹائون امیر ہندوئوں نے آباد کیا تھا اور یہاں مسلمان بہت کم تھے۔ ہر گھر کے سامنے ایک بڑا لان ہوتا تھا، جس میں پھل دار درخت ہوتے تھے، خاص طور پر آم کے درخت جو گرمیوں میں پھل دیتے تھے۔ ماڈل ٹائون بس سروس بھی موجود تھی جو شہر کے مختلف علاقوں تک جاتی تھی، جیسے سرائے رتن چند، گوالمنڈی، اور شاہ عالمی وغیرہ۔
ماڈل ٹائون کے رہائشی ریٹائرڈ جج، مالدار کاروباری تاجر، اور اعلیٰ درجے کی دکانوں کے مالک تھے۔ کئی ہائیکورٹ کے جج، ڈاکٹر، اور انجینئر بھی اس وقت شہر سے ماڈل ٹائون منتقل ہو گئے تھے۔
لاہور کے اس بہترین رہائشی علاقے کے رہائشیوں میں کالج کے پروفیسرز اور سول سروس کے افسر بھی شامل تھے۔ معروف کمیونسٹ رہنما بی پی ایل بیدی ، جو برطانوی اور جرمن یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ تھے، وہ بھی یہاں رہتے تھے۔ ان کے بیٹے کبیر بیدی بھارت کے مشہور اداکار بنے۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ برطانوی دور میں لاہور کے صرف چند مسلمان خاندان ہی خوشحال تھے۔ حتیٰ کہ پرانے شہر میں بھی زیادہ تر بڑی حویلیاں یا تو ہندوئوں اور سکھوں کی تھیں، جیسے حویلی کابلی مل، حویلی دھیان چند، اور حویلی رائے دیوان چند۔ شہر کے اندر مسلمانوں کی کچھ چھوٹی حویلیوں کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ایک حویلی محلہ سمیاں میں واقع تھی، جسے ’’ حویلی جج لطیف‘‘ کہا جاتا تھا۔ دوسری حویلی ’’ حویلی بارود خانہ‘‘ کہلاتی تھی، جہاں میاں امیرالدین کا خاندان رہتا تھا۔ یہ پانی والا تالاب اور کوچہ لنگے منڈی کے درمیان واقع تھی۔
لاہور کے زیادہ تر ہندو سونے، چاندی، اجناس اور کپڑوں کے کاروبار میں مصروف تھے، چاہے وہ تھوک میں ہو یا پرچون میں۔ شہر کے تمام ساہوکار ہندو تھے۔ سوہا بازار، مچھی ہٹہ، گمٹی بازار، بزّاز ہٹہ اور شاہ عالمی میں ہر کاروبار ہندووں کی ملکیت تھا۔ تاہم انارکلی میں واحد مسلمان کی دکان ’’ شیخ عنایت اللہ اینڈ سنز‘‘ موجود تھی۔ ڈبّی بازار میں کئی چھوٹی کتابوں کی دکانیں تھیں، جن میں زیادہ تر مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔
اسی بازار میں کشمیری پنڈت بھی پائے جاتے تھے، جو شال اور عمدہ اون کے کپڑے فروخت کرتے تھے۔
1947ء سے پہلے کے دنوں میں لاہور کی صبح مکاندری لال کی فیکٹری کے سائرن کی آواز سے شروع ہوتی تھی۔ مساجد سے اذان کی آواز آتی تھی، جبکہ ہندو مندروں میں صبح کی پوجا کے لیے گھنٹیاں بجائی جاتی تھیں۔ مکاندری لال کی فیکٹری بادامی باغ میں واقع تھی۔ شہر کی گلیوں میں گائے اور بھینسوں کا عام منظر ہوتا تھا۔ ہندو بیل کا احترام کرتے تھے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق یہ شیو جی مہاراج کی سواری ہے۔ گائے تو تمام ہندوئوں کے لیے مقدس تھی۔ کبھی کبھار یہ جانور سڑک کے بیچ میں بیٹھ جاتے تھے، جس سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی تھی۔ ایسے مناظر اب دہلی شہر میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کچھ ہندو دکان دار ان جانوروں کے لیے بڑی چٹانوں کی نمک رکھ دیتے تھے تاکہ وہ چاٹ سکیں۔ زیادہ مذہبی ہندوئوں نے جانوروں کے لیے پانی کے حوض بھی بنوائے تھے۔ یہ سب انسانیت نواز اقدامات تھے۔ ہر ہندو محلے میں شادی ہال پائے جاتے تھے جنہیں ’’ جنج گھر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ ان خاندانوں کے لیے بہت مددگار تھے جو گھر پر شادی کی تقریبات منعقد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔
ہندو خواتین مسلم خواتین کی طرح پردہ نہیں کرتی تھیں، لیکن غیر شادی شدہ ہندو لڑکیوں کو میک اپ کرنے یا بے حجابی سے گھومنے کی اجازت نہیں تھی۔
پرانے شہر کی ایک عظیم اور محبوب شخصیت ڈاکٹر سنت سنگھ تھے۔ ان کا کلینک حویلی کابلی مل اور چوک چونا منڈی کے درمیان واقع تھا۔ وہ انتہائی رحم دل انسان تھے اور دوائیوں کے لیے کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔ سب کو برابر سمجھتے تھے، چاہے ان کا مذہب کچھ بھی ہو۔
ایک اور نہایت مہربان ڈاکٹر موری گیٹ کے اندر ڈاکٹر بہادر شاہ تھے، جو دوائیوں کے لیے بھی فیس نہیں لیتے تھے۔ کبھی کبھار وہ غریب مریضوں کو دودھ خریدنے کے لیے پیسے بھی دیتے تھے۔ جب بھی کوئی ہندو جنازہ بازار سے گزرتا تھا، ہندو دکان دار اپنا کام چھوڑ کر اپنی دکانوں سے نیچے اتر آتے تھے اور ہاتھ جوڑ کر مرحوم کو عزت دیتے تھے۔ جب کسی ہندو کا انتقال ہوتا، تو اس کی لاش کو بستر سے ہٹا کر زمین پر رکھ دیا جاتا تھا، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اگر مردہ شخص وہیں رہے جہاں وہ فوت ہوا ہے تو اس کی روح گھر سے باہر نہیں جائے گی۔
لاہور کے تین یا چار شمشان گھاٹ شہر سے باہر واقع تھے، جن میں سے ایک دریائے راوی کے کنارے تھا۔ شہر کا سب سے مشہور شمشان گھاٹ ٹکسالی دروازے کے باہر واقع تھا۔
قریبی خاندان کا فرد چتا پر گھی ڈالتا اور پھر آگ لگا دیتا۔ صبح کے وقت چتا کی بچی ہوئی باقیات پر دودھ ڈالا جاتا، اور ان باقیات کو اکٹھا کر کے ایک مٹکے میں رکھا جاتا، اور پھر دریائے راوی میں بہا دیا جاتا۔ خوشحال لوگ یہ باقیات مقدس دریا گنگا میں بہانے کے لیے بنارس کا سفر کرتے تھے۔