Ahmad NaveedColumn

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے امریکہ نے کیا کھویا کیا پایا

احمد نوید
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ امریکا کے 47ویں صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخاب میں 538میں سے ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے 279اور ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس نے 226الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اب نئی بلندیوں پر پہنچے گا۔
فلوریڈا کے شہر پام بیچ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہم نے آج نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے، ملک کے تمام معاملات اب ٹھیک کریں گے، ایسی شاندار کامیابی امریکی عوام نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایسی سیاسی جیت اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی گئی، امریکا کو محفوظ، مضبوط اور خوش حال بنائوں گا۔ انہوں نے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کے ووٹ کے بغیر کامیابی ممکن نہیں تھی۔
خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے سینیٹ میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے، سینیٹ میں ہماری جیت غیر معمولی ہے۔ مجھے 315الیکٹورل ووٹ جیتنے کی اُمید تھی، امریکہ کے تمام معاملات اب ٹھیک ہونے والے ہیں، عوام نے میرا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ امریکہ کو مضبوط بنانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ سرحدوں کو سیل کرنا پڑے گا۔ اب امریکہ میں جو بھی کوئی آئے گا وہ قانونی طور پر آئے گا۔ میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کروں گا بلکہ جاری جنگوں کو بھی ختم کروں گا۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ جو وعدے کیے ہیں انہیں پورا کرے گے۔ ہم ٹیکسوں میں کمی کریں گے، قرضے ادا کریں گے، میں آپ کے لیے، آپ کے خاندان اور آپ کے مستقبل کے لیے ہر ایک دن لڑوں گا۔
ایک بار پھر امریکی صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکہ کو پوری دنیا کا پولیس مین بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ پوری دنیا کا ٹھیکیدار نہیں ہے۔ اس کو اپنے معاملات سے غرض ہونی چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ نئے کاروباری معاہدے کیے جائیں۔ امریکہ کے کاروباری مفاد کو بچایا جائے۔
یہ ٹرمپ ہی تھے ، جو روس کے صدر پوتن سے تعلقات بنانے اور روس اور امریکہ کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے انہوں نے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا تھا۔ یہ ٹرمپ ہی تھے جو امریکہ کے صدر بنتے ہی نارتھ کوریا کے حکمران سے ملنے پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے قدموں سے چل کر سائوتھ کوریا سے بارڈر کے آگے جا کر نارتھ کوریا کے رہنما سے ملاقات کی تھی جو کہ ایک بہت ہی بڑا قدم تھا۔
ٹرمپ میڈیا کے خلاف اپنا ایک خاص موقف رکھتے ہیں۔ ان کے دور میں کئی نشریاتی اداروں کے نمائندوں کو وائٹ ہائوس سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے بڑے اخبارات کے خلاف محاذ آرائی کی۔ یہ اعلان کیا کہ جب وہ وائٹ ہاس میں ہے تو یہ اخبارات وائٹ ہاس نہیں آئیں گے۔ ان کے نمائندوں پر پابندی لگانے کی کوشش کی ۔ ان میں سے کئی نمائندے عدالت جا کر اجازت لے کر وائٹ ہاس میں دوبارہ رپورٹنگ کرنے کے لئے آئے۔ ٹرمپ کے دور کی وجہ سے سپریم کورٹ میں ایسے ججز کا آنا ممکن ہوا جن کی وجہ سے وہ راہ ہموار ہوئی جس کے نتیجے میں امریکہ میں خواتین کو ابورشن پر جو حقوق دئیے گئے تھے۔ وہ ان سے واپس لے لیے گئے اور یہ اختیارات ریاستوں کے پاس چلے گئے ۔
ٹرمپ کے واپس آنے سے یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ بہت سی ایسی کامیابیاں جو کہ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، تعلیم کے حقوق، امیگریشن کے حقوق سے متعلق پچھلے 20سے 25برس میں اوباما کے دو مرتبہ صدر بننے کی وجہ سے حاصل ہوئی تھیں، وہ ریورس ہو سکتیں ہیں۔
اس کے علاوہ وہ لوگ جو ٹرمپ سے اچھی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یوکرین اور روس کی جنگ جلد ہی ختم ہو سکتی ہے چونکہ ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ یوکرین کو امریکہ کی طرف سے امداد دی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ اگر فوری طور پر ایسا ہوتا ہے تو یوکرین ایک بہت ہی کمزور پوزیشن میں آ جائے گا جس سے نیٹو کی سیکیورٹی دائو پر لگ سکتی ہے اور یورپ کے سیکیورٹی خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی جیت امریکہ کی اپنی ساکھ کو بھی دائو پر لگائے ہوئے ہے۔ بہت سے شکوک و شباہت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ کا پہلا امتحان یہ ہوگا کہ انہوں نے جو کہا تھا کہ یوکرین کی جنگ کو 24گھنٹے میں بند کریں گے اور جو بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سیاسی چال چلی تھی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان کو دوبارہ ریپیٹ کیا اور انہوں نے کہا کہ جب میں نے کہا ہے تو 24گھنٹے میں ہی میں اس جنگ کو بند کروں گا ۔
ٹرمپ کی جیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ کی بہت سی ایسی ریاستیں جہاں پہ مسلمان بہت زیادہ تھے یا عرب ممالک کے لوگ بہت زیادہ تھے، وہاں پہ ٹرمپ کی تمام تر اینٹی ایمیگرینٹس تقریروں کے باوجود انہوں نے ٹرمپ کوہی ووٹ دئیے ہیں ۔ جس کی وجہ بغض معاویہ کہا جارہاہے۔ امریکن مسلمانوں کا خیال ہے کہ بائیڈن ایڈمنسٹریشن نے اسرائیل کو بہت زیادہ سپورٹ کیا اور اسرائیل نے امریکہ سے جو اسلحہ حاصل کیا۔ وہ غزہ میں استعمال کیا گیا اور غزہ کو تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ اس لیے انہوں نے بائیڈن کے خلاف ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے لیکن اب ٹرمپ جو کہ کہتے ہیں کہ وہ یوکرین میں 24گھنٹے میں جنگ کو بند کر دیں گے۔ ان سے ہم یہ سننا چاہتے ہیں کہ وہ غزہ کی جنگ کو کتنے گھنٹے یا کتنے دنوں میں بند کریں گے۔
بہرحال ٹرمپ کو اس بات پر خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے اپنی جیت کی پہلی تقریر میں یہ کہا ہے کہ اب کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی جائے گی بلکہ پہلے سے جاری جنگوں کو بھی ختم کیا جائے گا یہ بات بہت اہم ہے کیونکہ جو بائیڈن کے منہ سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں نکلی تھی۔

جواب دیں

Back to top button