Ali HassanColumn

کیا پہلا مارشل لاء اسکندر مرزا نے نافذ کیا تھا؟

علی حسن
پاکستان میں نافذ کیا جانے والا پہلا مکمل مارشل لاء فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل ایوب خان نے خود نافذ کرنے کے بجائے کمال ہوشیاری سے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا سے ایک بیان کے ذریعہ اعلان کرایا گیا تھا۔ ایسا اس لئے کیا گیا تھا کہ کسی مقدمہ کی صورت میں ایوب خان کے پاس اپنے دفاع کا سامان موجود ہو۔ ایک بیان میں اس وقت کے صدر پاکستان اسکندر مرزا نے کہا ’’ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ (1)۔ 23مارچ1956ء کا آئین منسوخ کو دیا جائے گا، (2)۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر برخاست ہو جائیں گی۔ (3) ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں فوری طورپر تحلیل ہو جائیں گی، (4)۔ تمام سیاسی جماعتیں منسوخ ہو جائیں گی۔ ( 5) جب تک متبادل انتظامات کئے جائیں پاکستان مارشل لاء کے تحت ہوگا ۔ میں جنرل محمد ایوب خان ، کمانڈر ان چیف، پاکستان آرمی کی بحیثیت چیف مار شل لاء ایڈ منسٹر تقرری کرتا ہوں اور افواج پاکستان کو ان کے ماتحت کرتا ہوں‘‘۔
یوں تو ان کا یہ بیان طویل ہے لیکن اس میں انہوں نے اپنے فیصلے کے جواز پیش کئے ہیں۔ ایوب خان کو ان کی ملازمت میں دو سالہ ایکسٹینشن 9اکتوبر1958 ء کو ہی اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان نون کے ہاتھوں اسکندر مرزا نے ہی دلوائی تھی۔ اعتماد کی ایک مثال یہ تھی کہ تحریک پاکستان کے ایک سیاسی رہنما یوسف ہارون کی زوجہ پاشا ہارون جو ریل گاڑی کا سفر کر رہی تھیں۔ اس سفر میں اسکندر مرزا اور ایوب خان بھی موجود تھے۔ پاشا ہارون نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ تاش کھیلتے کھیلتے اسکندر مرزا نے ایوب خان سے سوال کیا کہ تم میرے ساتھ بے وفائی تو نہیں کرو گے، جواب میں ایوب خان نے کہا میرے خون کا قطرہ قطرہ تمہارا وفادار رہے گا۔ اسکندر مرزا نے اندازہ ہی نہیں کیا تھا کہ چند دن کے بعد ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ آپس میں اعتماد تھا، اس لئے کسی شک کی گنجائش نہیں تھی۔ ایوب خان کے اس وقت کے دست راست جنرل اعظم خان نے شائع شدہ ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ ایوب خان نے ہم سے مشورہ کیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اسکندر مرزا سے استعفیٰ لے کر فارغ کر دیا جائے۔ ایوب خان کے رضامندی سے جنرل اعظم خان، جنرل واجد برکی، جنرل کے ایم شیخ رات دس بجے ایوان صدر پہنچے، جہاں ان لوگوں نے صدر کو ان کے آرام خانہ سے زبر دستی اٹھوایا وہ نیند کے لباس میں تھے انہیں باہر طلب کیا گیا۔ ( اس وقت یقینا اسکندر مرزا کی اہلیہ ایرانی النسل بیگم ناہید بھی گھر میں موجود ہوں گی)، اعظم خان کہتے ہیں انہوں نے اسکندر مرزا کو صورت حال بتاتے ہوئے اپنے پستول ان کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا اور استعفیٰ لکھنے کا کہا۔ اعظم خان کہتے ہیں کہ مرزا نے آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی تو میں نے پستول پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ استعفیٰ تو ابھی اسی وقت دینا ہوگا۔ صدر پاکستان اسکندر مرزا نے کسی چوں چراں کے بغیر استعفیٰ لکھ کر اعظم خان کے سپرد کر دیا۔ ( حیران کن بات ہے کہ اسکندر مرزا سے آدھی رات کے وقت پستول دکھا کر استعفیٰ لیا گیا۔ اسی طرح جنرل یحییٰ خان نے ایوان صدر جا کر ایوب خان سے استعفیٰ لیا تھا)۔
اعظم خان ایوان صدر سے بقول ان کے سیدھے مادر ملت کے گھر پہنچے اور انہوں پورے قصے سے آگاہ کیا۔ مادر ملت نے خوشی کا اظہار کیا۔ ( مادر ملت اسکندر مرزا سے اس لئے ناراض تھیں کہ وہ پاکستان کی نئی حد بندی کے نام پر بلوچستان کو وہ علاقہ ایران کو دینا چاہتے تھے جہاں معدنیات ہیں )۔ استعفیٰ لینے کے بعد یہاں سے تینوں جنرل ایوب خان کے دفتر پہنچ گئے اور اس طرح ایوب خان کے لئے بذات خود مکمل مارشل لاء نافذ کرنے کا راستہ ہموار ہو گیا جو 27اکتوبر1958ء کو نافذ کیا گیا۔ مستعفی ہونے والے صدر کے استعفیٰ کا باضابطہ اعلان خود ان کے ہی منہ سے 28اکتوبر1958ء کو کرایا گیا۔ اس سے قبل 27اکتوبر کو وزراء نے حلف اٹھا لیا تھا۔ حلف اٹھانے والوں میں وہ تین فوجی جنرل بھی شامل تھے جنہوں نے اسکندر مرزا سے زبر دستی استعفیٰ لیا تھا۔ اگلے روز معزول صدر کو ان کی بیگم کے ہمراہ کوئٹہ روانہ کر دیا گیا جہاں انہیں پانچ روز تک فوج کے پہرے میں رکھا گیا۔2نومبر 1958ء کو انہیں بتایا گیا کہ انہیں جلا وطن کر کے لندن بھیجا جا رہا ہے۔ لندن میں سابق صدر نے اپنے آخری گیارہ برس بڑی تنگی اور حسرت میں گزارے۔ انہیں صرف تین سو پائونڈ ماہانہ پنشن ملتی تھی جو ان کے گھریلو اخراجات کے لئے بہت کم تھی۔ لندن میں وہ اپنے دیرینہ دوست مرزا ابوالحسن اصفہانی کے فلیٹ میں مقیم رہے۔ انہیں اپنے گزر سفر کے لئے ایک ہوٹل میں ملازمت کرنا پڑی تھی۔ اسکندر مرزا کے آخری ایام ان کی چھوٹی صاحبزادی بیگم شاہ تاج امام نے اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان سے ایک خط لکھ کر استدعا کی کہ ان کے والد کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں سے ملاقات کر سکیں لیکن انہیں بتایا گیا کہ صدر یحییٰ خان نے جواب دیا ہے کہ فی الحال وہ اپنے پاکستان آمد کے منصوبہ کو موخر کر دیں۔ اسکندر مرزا کو ان کے آخری ایام میں پاکستان آنے نہیں دیا گیا لیکن 13نومبر1969ء کو لندن میں ان کی موت کے بعد ایران نے ان کی میت تہران میں لانے کی اجازت دی۔ ان کا پاکستانی پرچم میں لپٹا ہوا
تابوت ایران کے دارالحکومت تہران لایا گیا، ہوائی اڈے پر انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا اور ان کے اکلوتے صاحبزدے ہمایوں نے جنازہ وصول کیا۔ اس کے بعد تہران کی سپاہ سالار مسجد میں اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم امیر عباس ہویدا نے ان کے جنازہ پر اظہار عقیدت پیش کیا۔
اسکندر مرزا سے فارغ ہو کر ایوب خان نے قوم سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر کا کچھ حصہ اس طرح تھا۔ ’’ میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم۔ میں آپ کے سامنے جن مسائل پر تقریر کر رہا ہوں وہ اہم بھی ہیں اور سنجیدہ بھی۔ ضروری ہے کہ آپ میری باتوں کو احتیاط سے سنیں اور صحیح طور پر سمجھیں تاکہ آپ تعمیری طریقے پر عمل کر سکیں کیوں کو ہم سب کی بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کی نجات صحیح عمل ہی میں ہے۔ آپ صدر ( اسکندر مرزا) کا وہ اعلان سن چکے ہوں گے جس کے ذریعے انہوں نے آئین منسوخ کیا اور پورے پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا ہے، انہوں نے مجھے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا ہے اور سول مسلح افواج سمیت پاکستان کی تمام مسلح فوجوں کو میری کمان میں دے دیا ہے۔ یہ سخت اور انتہائی قسم کی کارروائی ہے، جو بہت بادل نخواستہ لیکن پورے اطمینان کے بعد کی گئی ہے۔ اگر یہ نہ کی جائے تو ملک کی مکمل تباہی اور خاتمہ کے سوا کچھ نہ ہو گا‘‘۔

جواب دیں

Back to top button