Column

شکست در شکست کا موسم

تحریر : سیدہ عنبرین

غزہ میں ایک برس سے جاری خونریزی کو چند مسلمان ملکوں کے علاوہ تقریباً تمام ہی خاموشی سے دیکھتے رہے، ہر جگہ ایک ہی سوچ نظر آئی، عوام فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ تھے، حکومتیں جارحیت کرنے والوں کے ساتھ تھیں اور در پردہ اس سازش کا حصہ بنی تھیں کہ جارح کو تسلیم کر لیا جائے۔ مسلمان ممالک میں بسنے والوں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ میں مظلوموں کے حق میں صدائے احتجاج بلند ہوئی اور لوگ دیوانہ وار سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں نکلے تو ان کی صدائے احتجاج پر کان دھرنے کی بجائے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے سامنے آ گئے، پاکستان میں بھی یہی صورتحال تھی، جماعت اسلامی نے اس حوالے سے ملین مارچ شروع کیا تو اس کے حق میں ملک کے کونے کونے سے آواز اٹھی، یہ آواز اتنی گرجدار تھی کہ سرکار اس بات پر مجبور ہو گئی کہ اس نے اب بھی اس آواز میں اپنی آواز نہ ملائی تو پھر اس کی آواز کبھی بھی کہیں نہ سنی جائے گی، اسی خیال کے پیش نظر اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اس معاملے میں نمایاں تھے۔ ایوان صدر میں مختلف سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر محترمہ شیری رحمان نے نہایت مناسب انداز میں کانفرنس کی نظامت کی۔ وزیراعظم پاکستان نے درد مندانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے دو ریاستی حل کی بات کی تو تمام زعماء نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا، اس ایک لمحے میں سب معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے کہ ایجنڈا کیا ہے۔
تین مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے جو موقف اختیار کیا وہ اس پر تحسین کے مستحق ہیں، انہوں نے دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں اور اہل فلسطین کی بہترین ترجمانی کی۔ ان زعماء میں جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر جناب حافظ نعیم الرحمٰن اور مجلس وحدت المسلمین کے جناب علامہ ناصر عباس شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے سب کو یاد دلاتے ہوئے ہوئے کہا کہ 1940ء کی قرارداد اٹھا کر دیکھ لیں۔ فرمان قائداعظم پر ایک نظر ڈال لیں اور قیام پاکستان کے بعد اس معاملے پر پاکستان کا موقف دیکھ لیں، اس کے مطابق اسرائیل کا قیام ایک ناجائز ریاست کا قیام ہے، جس نے بے دریغ فلسطینی مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔ امریکہ اور یورپ اس کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ انہیں برس ہا برس سہولتیں مہیا کرتا نظر آتا ہے، اتنی قربانیوں کے بعد آج دو ریاستی حل کی بات کرنے والے پاکستان کے موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے جب اپنی بات شروع کی تو اس پر ٹی وی کیمروں نے سرکاری چہروں کا کلوز اپ دکھایا، سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، عین اس موقع پر کھانا پیش کرنے کا اشارہ کر دیا گیا، ویٹرز کی بھاگ دوڑ شروع ہو گئی، پھر چمچوں اور پلیٹوں کی جلترنگ کے ذریعے گفتگو میں رخنہ ڈالنے اور اس کا اثر کم کرنے کی کوششیں عروج پر پہنچ گئیں۔ مولانا کا جذبات سے بھرپور خطاب جاری رہا، ویٹرز ان کے دائیں بائیں پلیٹیں ہاتھ میں لئے منکر نکیر کی مانند کھڑے رہے اور آگے پیچھے ہوتے رہے، لیکن مولانا نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی، اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نظر آئے، لیکن کانفرنس کے منتظمین کو جلدی تھی کھانا سرو کرانے کی، ان کے نزدیک کانفرنس کے موضوع اور اس پر گفتگو کی کوئی اہمیت نہ تھی، وہ کھانا ٹھنڈا ہونے سے بچا رہے تھے۔
مجلس وحدت المسلمین کے راہنما جناب ناصر عباس نے کہا کہ ہمارا دین مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دینے دیتا ہے، ہمیں دنیا بھر میں جارحیت کا شکار مسلمانوں کیلئے صرف آواز ہی نہیں بلند کرنا چاہئے بلکہ ان کیلئے میدان عمل میں آنا چاہئے، انہوں نے آیات قرآنی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن اس حوالے سے کانفرنسوں اور قراردادوں کی بات نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے، تم اللہ کی راہ میں قتال کیوں نہیں کرتے، انہوں نے دو ریاستی حل کی مخالفت کرتی ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کوئی حل نہیں ہے، یہ جارح کی جارحیت کو تسلیم کرنے کے برابر ہے، ہمیں اپنا رویہ، اپنی سوچ بدلنی چاہئے، فلسطین فلسطینیوں کا ہے، مسلمانوں کا ہے، اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کا کوئی جواز نہیں، ہم آزادی فلسطین کی بات کرتے ہیں، پاکستان کا یہی اصولی موقف ہے۔ جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے سربراہ کی کوششوں سے حکومت کے کان پر جوں رینگی، یہ ان کا کریڈٹ ہے کہ ان کے موثر انداز میں آواز بلند کرنے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پر لانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کانفرنس میں اپنے جاندار خطاب سے دو ریاستی حل کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے۔ انہوں نے کہا یہ حل امریکہ اور مغرب کا دیرینہ خواب ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ہمارے گھر پر دھاوا بول دے، ہمیں بے دخل کر دے، ہم پر ہر طرح کا ظلم و ستم کرتا رہے اور ہم مسئلے کے حل کے طور پر کہیں کہ اب ہمارے گھر کا آدھا حصہ جارح کو دیا جائے، یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا حماس کا دفتر پاکستان میں کھولنا چاہئے، تین جماعتوں کے سربراہوں کی طرف سے حقیقت پسندانہ موقف پیش کیا گیا، جو قابل تحسین ہے۔ کانفرنس میں کچھ اور سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بھی تھی، لیکن ان کے سربراہوں یا نمائندوں کے خطابات سرکاری میڈیا پر نظر آئے نہ ہی کسی پرائیویٹ چینل نے انہیں اپنی نشریات میں جگہ دی، لیکن امکان یہی ہے کہ کسی بھی جماعت کے سربراہ نے پاکستان کے دیرینہ اصولی موقف سے رو گردانی نہیں کی، کوئی اگر حکومتی ہاں میں ہاں ملانا بھی چاہتا تھا تو تین اہم ترین سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے جس طرح اپنی جماعت اور اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی کی اس کے بعد ان سے مختلف کسی اور سوچ کو پذیرائی ملنے کا کوئی امکان باقی نہ رہا تھا۔
حیرت کی بات ہے فلسطین کی حمایت کرنے والے چند ممالک کا ذکر کیا گیا لیکن جس ملک نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کو للکارا، جنگ آزادی فلسطین میں اپنا عمل حصہ ڈالا وہ ملک ایران ہے، اس کا کسی نے ذکر نہیں کیا۔ ایران میدان جنگ میں اتر چکا ہے جبکہ بیشتر مسلمان ملکوں کا رویہ اب بھی تماش بینوں کا سا ہے، بڑی کامیابی نصیب ہونے کے بعد سب زبانی جمع خرچ کرنے والے داد سمیٹنے بھاگے چلے آئیں گے، دو ریاستی حل کے تعاقب میں بھاگتے حکومتی موقف کو پذیرائی نہیں ملی۔ حکومت کو شکست ہو گئی ہے، یہ دوسری شکست ہے، اس سے قبل فلسطین کے غم میں آئینی ترمیم کا دور شامل کر کے ایک نشست ہوئی، یہاں بھی حکومت کو شکست ہوئی، شکست در شکست کا موسم ہے۔

جواب دیں

Back to top button