ColumnQadir Khan

پاکستان میں داخلی خلفشار اور مشرق وسطیٰ کی تزویراتی تبدیلیاں

تحریر : قادر خان یوسف زئی

ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین تنازع تو برسوں پرانا ہے، جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف بالواسطہ کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ واقعات نے اس دشمنی کو ایک نئے خطرناک مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد، ممکنہ جوابی حملے کے امکانات نے خطے میں جنگ کا ماحول پیدا کر دیا ہے، جس کے سنگین نتائج پورے خطے اور عالمی سیاست پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے، جو مشرق وسطیٰ کے ساتھ تاریخی، مذہبی، اور اقتصادی روابط رکھتے ہیں، اس تنازع کی سنگینی اور اس کے اثرات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ ایسے حالات میں ناگزیر ہے کہ پاکستان اپنے داخلی معاملات کو سنبھالی اور قومی اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کرے، تاکہ بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ بدقسمتی سے، ملک میں کچھ سیاست دان اور قیادت ایسے وقت میں بھی فروعی سیاست اور ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں، جس کا براہ راست اثر قومی سلامتی اور بین الاقوامی وقار پر پڑ سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نازک وقت میں بھی سیاسی قیادت اتفاق و اتحاد کے بجائے انتشار اور خلفشار کو ہوا دے رہی ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ جب دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور مشرق وسطیٰ کی جنگ پاکستان کے دہلیز پر دستک دے رہی ہے، تو ہماری سیاسی قیادت اندرونی محاذ پر عوام کو متحد کرنے کے بجائے انہیں مختلف سیاسی، نسلی اور لسانی گروہوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ یہ تقسیم عوام کو مزید کمزور اور ملک کو مزید غیر مستحکم کر رہی ہے، جس کا فائدہ دشمن طاقتیں اٹھا سکتی ہیں۔ اگر ملک اندرونی طور پر کمزور رہا، تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی۔ سیاسی قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ اندرونی اختلافات اور تنازعات کو ہوا دینا قومی مفاد کے خلاف ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بین الاقوامی سطح پر شدید تزویراتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا براہ راست اثر نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوبی ایشیا پر بھی پڑے گا، اور پاکستان کو ان ممکنہ اثرات کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ عوامی اتحاد اور داخلی استحکام اس جنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔
ایران اور اسرائیل کے ممکنہ تنازع کے بعد پیدا ہونے والے عالمی اثرات پاکستان کو بھی متاثر کر سکتے ہیں، عوامی اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک مستحکم اور مضبوط ملک کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اگر ہم نے اس وقت اتفاق و اتحاد پیدا نہ کیا، تو پاکستان اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے، جس کے نتائج ناقابل تلافی ہوں گے۔ لہٰذا، سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ فروعی سیاست اور اداروں سے محاذ آرائی کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ داخلی استحکام اور عوامی اتحاد ہی ملک کو بین الاقوامی سطح پر محفوظ اور مضبوط بنا سکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی تزویراتی تبدیلیوں اور ایران و اسرائیل کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں، پاکستان کو نہ صرف اپنی خارجی پالیسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، بلکہ ملک کے اندرونی معاملات میں استحکام لانے کا بھی وقت آچکا ہے۔ جہاں عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ کے میدان جنگ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں، وہیں پاکستان کی سرحدیں دہشت گردی، داخلی خلفشار، اور احساس محرومی کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں خطرناک حد تک گہری ہو چکی ہے۔
پاکستان کا صوبہ بلوچستان عرصہ دراز سے دہشت گردی اور انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کا شکارہے۔ یہاں کے عوام دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، جو بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کے تحت صوبے میں انتشار اور بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور شمال مغربی سرحدی علاقوں میں بھی دہشت گردی نے عوام کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ یہ علاقے طویل عرصے سے دہشت گردوں اور شدت پسند گروہوں کی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، جنہوں نے نہ صرف عوام کو اپنی زندگیوں میں خوف اور غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کیا بلکہ ملکی ترقی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ ملک میں بعض عناصر اور بیرونی قوتیں منفی پروپیگنڈے کا سہارا لے کر عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ یہ عناصر افواج کے خلاف منفی بیانیی کو فروغ دے رہے ہیں، جو کہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان دہشت گردی اور بین الاقوامی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، منفی پروپیگنڈا ملکی استحکام کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جانے والا منفی پروپیگنڈا عوام کو تقسیم کرنے، قومی یکجہتی کو توڑنے اور ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے کا باعث بن رہا ہے۔ عوام کو اس پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں حقائق پر مبنی رائے قائم کرنی چاہیے اور ملک کے مفاد میں سوچنا چاہیے۔ سیاست دانوں کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ قومی مفادات کو ذاتی مفادات سے بالاتر رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ منفی پروپیگنڈے کا مقصد صرف اور صرف عوام میں بے یقینی اور انتشار پیدا کرنا ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ عوام، سیاسی قیادت، اور ریاستی ادارے مل کر ایک صف میں کھڑے ہوں۔ داخلی استحکام اور اتفاق و اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں، کیونکہ اگر ہم داخلی طور پر کمزور رہے تو بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تزویراتی تبدیلیاں ہمیں مزید کمزور کر دیں گی۔ ایران اور اسرائیل کے تنازعے جیسے بین الاقوامی معاملات پاکستان کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر کر سکتے ہیں، اور اگر ملک داخلی طور پر غیر مستحکم رہا تو یہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز بے شمار ہیں، لیکن سب سے بڑا چیلنج داخلی انتشار اور اداروں کے درمیان ٹکرائو کو ختم کرنا ہے۔ عوام کو دہشت گردی، احساس محرومی، اور منفی پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے ریاستی اداروں اور مسلح افواج کے ساتھ یکجہتی ضروری ہے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال اور ایران اسرائیل تنازع کے پس منظر میں، پاکستان کو داخلی استحکام اور قومی اتحاد کو فروغ دینا ہوگا تاکہ وہ بین الاقوامی چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کر سکے۔ سیاست دانوں، میڈیا اور عوام سب کو چاہیے کہ وہ فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر ملکی مفادات کو مقدم رکھیں۔ ملکی سالمیت، داخلی استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button