Column

نمک حرام ڈیوڑھی

تحریر : علیشبا بگٹی
آج سے ٹھیک 266سال پہلے جون کے ایک انتہائی گرم دن بنگال کے ایک محل میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی۔ محل کے خاص حصے میں ہونے والی اس اہم میٹنگ میں صرف تین افراد شریک تھے۔ جن میں ایک انگریز افسر تھا، دوسرا محل کا مالک اور تیسرا مالک کا بیٹا۔ اس ملاقات میں شامل انگریز بنگالی زبان میں فرفر گفتگو کر رہا تھا۔ ملاقات کے اختتام پر جب تمام معاملات طے پا گئے۔ تو انگریز افسر نے محل کے مالک اور اُس کے بیٹے کے سر پر قرآن رکھ کر اُن سے حلف لیا۔ کہ وہ وہی کچھ کریں گے جو اُن سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے کہا جائے گا۔ اور بدلے میں اُنہیں بنگال کی حکمرانی دی جائے گی۔ اِسی دوران محل کے مالک اور اُس کے بیٹے نے بھی ایک شرط انگریز افسر کے سامنے رکھی۔ جسے تسلیم کر لیا گیا۔ یہ شرط فتح کے بعد ایک مخصوص شخص کو ذلیل و خوار کرنے کے حوالے سے تھی۔ منظر تبدیل ہوتا ہے۔ یہ مرشد آباد سے ستائیس میل دور بھاگیر ندی کے نزدیک واقع پلاسی کا میدان ہے جہاں انگریزوں اور بنگال کے نواب سراج الدولہ کی افواج ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہیں۔ اِس جنگ میں انگریزوں کی فتح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ انگریز فوجیوں کی تعداد صرف 3100کے قریب تھی۔ جبکہ سراج الدولہ کی افواج کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار تھی۔ نوابی لشکر کے پاس اتنی بڑی بڑی توپیں تھیں کہ ایک ایک توپ کو کھینچنے کے لیے پچاس پچاس بیلوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ یہ خاص نسل کے بیل اِسی مقصد کے لیے پالے جاتے تھے۔ بعض تاریخی شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہر توپ کو پیچھے سے ایک ہاتھی بھی دھکیل رہا ہوتا تھا اور تبھی توپ کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا ممکن ہو پاتا تھا۔ اگر آپ کو اس سے ملتے جلتے مناظر دیکھنے ہوں تو انگریزی فلم ’’ دی لارڈ آف دی رنگز ‘‘ میں اِسی قسم کے کچھ مناظر دیکھنے کو مل جائیں گے۔
جنگ کا بگل ایک روز پہلے ہی بج چکا تھا۔ دوسرے روز جب جنگ کا دوبارہ آغاز ہوا تو نواب سراج الدولہ کی 45000 کے لگ بھگ فوج خاموشی سے پیچھے ہٹنے لگی۔ اِس کے بعد انگریزوں نے پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت بچی کھچی نوابی فوج کا صفایا شروع کر دیا اور صرف گیارہ گھنٹوں کے دوران نہ صرف بنگال بلکہ آئندہ 180سالوں کے لیے پورے ہندوستان کی قسمت کا بھی فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہ سب کچھ اُسی کامیاب میٹنگ کا نتیجہ تھا۔ جو جنگ کے دوسرے روز کے آغاز سے پہلے بنگال کے ایک محل میں منعقد ہو چکی تھی۔ اس محل کا مالک سراج الدولہ کی فوج کا سالار میر جعفر تھا۔ نواب سراج الدولہ کی سمجھ میں تو آگیا کہ اُن کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ نواب سراج الدولہ اپنی بیگم لطف النسا اور بیٹی قدسیہ بیگم کے ہمراہ کشتی کے ذریعے پٹنہ پہنچ کر خانقاہ میر بعنہ شاہ میں پناہ گزین ہوگئے۔ اِس دوران حسبِ وعدہ انگریزوں نے میر جعفر کو بنگال کا حکمران مقرر کر دیا۔ جلد ہی میر جعفر کے جاسوسوں کو معلوم ہو گیا کہ نواب سراج الدولہ کہاں چھپے ہیں۔ بنگالی سپاہ نے چھاپہ مارا اور نواب سراج الدولہ کو گرفتار کرکے مرشد آباد لانے کے بعد میر جعفر کے محل کی ڈیوڑھی میں قید کر دیا گیا۔ 2جولائی 1757ء کو محمدی بیگ نامی جلاد نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میر جعفر کے بیٹے میر میران کے حکم پر بنگال کے نواب سراج الدولہ کا سر قلم کر دیا۔ جس وقت سراج الدولہ کا سر قلم کیا گیا تب وہ نمازِ فجر کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ اِس کے بعد کچھ ہی عرصے میں ان کے خاندان کے تین سو افراد بشمول خواتین اور بچوں کو بھی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ میر جعفر کے بیٹے کی تجویز پر سراج الدولہ کو قتل کرنے کے بعد کی ان کی لاش کو ایک ہاتھی پہ رکھ کر پورے مرشد آباد میں گھمایا گیا تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ سراج الدولہ اب مر چکا اور اُس کے اقتدار کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
جنگِ پلاسی میں انگریزوں کی فتح پورے ہندوستان اور برما پر انگریزوں کے اقتدار کی ابتدا قرار پائی۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
اِس کے بعد میر جعفر کے ساتھ جو کچھ ہوا۔ وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اِس پورے واقعے کے بے شمار دیگر پہلو بھی ہیں، جنہیں ہم بخوبی سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی روش تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اِس واقعے کے کچھ عرصے بعد تک میر جعفر بنگال پر حکومت کرتا رہا لیکن خوشحال ریاستِ بنگال کو اس نااہل عیاش اور حریص حکمران نے خاصا بدحال کر دیا۔ پھر وہ وقت جلد ہی آگیا جب سراج الدولہ کو ذلیل و رسوا کرانے والا میر جعفر خود ذلیل و خوار ہو کر مر گیا۔ سراج الدولہ کو قتل کرانے والا اس کا بیٹا بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ پورے ہندوستان کو لوٹنے اور یہاں پونے دو سو سال تک حکمرانی کے مزے کرنے کے بعد انگریز بھی برصغیر سے رخصت ہو گئے۔ گویا سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ لیکن بنگال میں اُس ڈیوڑھی کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ جہاں سراج الدولہ کو قید رکھا گیا تھا۔ آج یہ ڈیوڑھی ’’ نمک حرام ڈیوڑھی ‘‘ کے نام سی جانی جاتی ہے۔ جسے غدار کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ میر جعفر کا محل تھا۔ یہ بھارتی ریاست مغربی بنگال میں ماہیما پور کے قریب واقع ہے۔ جو بھی یہاں سے گزرتا ہے اِس پر نفرت آمیز نظر ضرور ڈالتا ہے۔ اور تاریخ کے اُس دور کو یاد کرتا ہے۔ جب محض ایک شخص کی غداری نے پورے برصغیر کو انگریزوں کی غلامی میں دھکیل دیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک یہ ڈیوڑھی لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ایسا اِس لیے ہوا کہ تاریخ نے یہی فیصلہ سنایا کہ سراج الدولہ حق پر تھا اور میر جعفر غلط۔ وہ ایسا وطن فروش غدار تھا۔ جس کی ایک حرکت نے ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی میں دے دیا۔
آج وقت تبدیل ہو چکا ہے۔ انگریزوں کی رخصتی کو 75سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ میر جعفر کی ہڈیاں بھی خاک میں مل چکی ہوں گی۔ لیکن ہر کوئی اُسے آج بھی غدار سمجھتا ہے۔ تاریخ کا فیصلہ بھی یہی ہے۔ ہم سب بخوبی سمجھتے ہیں۔ کہ دنیا کی زندگی محض چند روزہ ہے۔ وہ دن جلد ہی آنے والا ہے جب ہمیں اپنے خالق کے حضور پیش ہوکر اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا مگر کیسی عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہم اپنے مفادات کے لیے انتہائی کام بھی کر گزرتے ہیں کرسی کے لئے سب کچھ پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہی رہا کہ کسی بھی طرح اقتدار حاصل ہو جائے اور بس۔۔۔ آج بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں بس طور طریقے تھوڑے تبدیل ہو گئے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ماضی والوں کا اقتدار رہا نہ اِن کا اقتدار دائمی ہے۔ مگر اس کے باوجود وقتی مفادات کے لیے کچھ بھی کر گزرنے والے ہر دور میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔
ہمارے بدقسمت ملک میں تو ہر سطح پر متعدد میر جعفر ہوتے ہیں۔ یہ ملکی مفاد کو دائو پر لگاتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔ کہ تاریخ چند صدیوں میں ان کے پر آسائش محلات کو نمک حرام ڈیوڑھی جیسی کھنڈرات میں تبدیل کر دے گی۔ تاریخ نے جس طرح میر جعفر اور اس کے محل کو یاد رکھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غداری ایک ایسا گناہ اور جرم ہے۔ جسے دُنیا کبھی بھی معاف نہیں کرتی۔ اس تاریخی واقعہ کی سب سے سبق آموز پہلو یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے قریبی لوگوں سے دھوکہ کھاتا ہے اور انہی سے نقصان اٹھاتا ہے جنہیں وہ اپنا ساتھی سمجھتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button