جنگ ستمبر کے چند گمنام ہیرو

بشارت فاضل عباسی
آج سے 59برس قبل 6ستمبر 1965ء کو افواج پاکستان نے ملک کا دفاع جس بہادری اور دلیری سے کیا وہ ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ دنیا کی کوئی بھی قوم اپنے وطن کے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتی کیوں کہ دفاع جتنا زیادہ مضبوط ہو گا اس ملک کی سرحدیں اتنی ہی محفوظ ہوں گی اور ملک کی سرحدوں کے اندر بسنے والے بھی بہادر اور دلیر ہوں گے۔ 1965ء کی سترہ روزہ جنگ پاکستانی قوم کی وقار، عزم اور استقلال کی علامت ہے جو ہمیں ہر سال ستمبر میں یاد دلاتی ہے کہ کس طرح افواج پاکستان نے اپنے سے زیادہ مضبوط اور دس گنا طاقت ور دشمن کی مسلح افواج سے عزم و ہمت اور بہادری سے مقابلہ کیا اور دشمن کے مذموم ارادہ نیست و نابود کیا ۔1965ء کی جنگ میں پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
ستمبر کی جنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی۔ اس جنگ میں بہت سے فوجی جوان شہادت کا درجے پر فائز ہوئے اور کچھ غازی کہلائے ، جن میں سے کچھ کو شہرت ملی اور کچھ گمنام رہ گئے۔ آج ہم اس جنگ کے کچھ گمنام ہیروز پر بات کریں گے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وطن عزیز کی حفاظت کی۔
ستمبر 1965کی جنگ میں بہت سے ایسے جوان تھے جنہوں نے دشمن کے خلاف بڑی بہادری اور دلیری سے جنگ میں حصہ لیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان میں سے کچھ تو شہید ہو گئے اور کچھ زخمی ہو کر زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے۔ ان میں سے بہت سے جوانوں کے نام تو تاریخ کے اوراق میں درج ہو گئے لیکن بہت سے ایسے بھی تھے جن کے نام آج تک گمنام ہیں۔ ان میں چند گمنام ہیرو ایسے ہیں جن کا ذکر ستمبر کی جنگ میں کم نظر آتا ہے۔
سکواڈرن لیڈر محمد اقبال نے پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان فضائیہ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی آپریشنل مشن مکمل انجام دئیے۔ انہوں نے یہ مشن عزم، جوش، غیر معمولی صلاحیت اور سب سے زیادہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر انجام دئیے۔ ان کی کارکردگی پورے جنگی مشنز کے دوران مثالی رہی اور ان کے ماتحت افراد اور ساتھیوں کو بہادری اور دلیری سے ان کی کمانڈ میں ہمت اور حوصلہ حاصل رہا۔ ان کی شاندار قیادت، بہادری، وفاداری اور پاکستان فضائیہ اور ملک کے لیے بے مثال خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
جنگ کے دوران امرتسر کے قریب ایک طاقتور اور سخت حفاظتی انتظامات والے ریڈار سٹیشن پر پاک فضائیہ کے طیاروں نے بار بار حملے کیے۔ ان تمام مشنز میں سکواڈرن لیڈر منیر نے بلا جھجھک رضاکارانہ طور پر اپنی جان کی پروا کیے بغیر پرواز کی، اور ہدف کو تلاش کرنے اور تباہ کرنے کی کوشش میں شدید فضائی فائر کا سامنا کیا۔ 11ستمبر کو آخری کامیاب حملے کے دوران ان کا طیارہ مارا گیا اور انہوں نے عظیم قربانی دی۔ اپنے آخری مشن سے پہلے، منیر نے آٹھ جنگی مشن مکمل کیے اور 10ستمبر کو ایک بھارتی جنگی طیارہ کو مار گرایا۔ بھاری مشکلات کے باوجود اور اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر بہادری اور عزم کا مظاہرہ کرنے پر سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد کو ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
6 ستمبر1965 کو سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی نے حلوارہ ایئر فیلڈ پر حملے کے لیے تین ایف 86طیاروں کے دستے کی قیادت کی۔ بھارتی سرحد عبور کرنے کے فوراً بعد، سکواڈرن لیڈر رفیقی کو واپس آتے ہوئے ایک ایف۔86کے دستے کے سربراہ نے فضا میں موجود دشمن کے متعدد طیاروں کے بارے میں خبردار کیا۔ تاہم، انہوں نے اپنے مشن کو پوری توجہ کے ساتھ جاری رکھا۔ واپسی پر، ان کے دستے کو دس ہنٹر طیاروں نے روکا جن میں سے سکواڈرن لیڈر رفیقی نے چند سیکنڈ میں ایک کو مار گرایا۔ ایک ہنٹر طیارہ کو مار گرانے کے بعد ان کی بندوقوں میں خرابی کے باعث گولیاں چلنا بند ہو گئیں ، جس پر انہوں نے جنگی علاقے کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جبکہ وہ پوری طرح حق بجانب تھے کہ ایسا کریں اس کے بجائے انہوں نے اپنے نمبر 2کو قیادت سنبھالنے اور دشمن سے لڑائی جاری رکھنے کا حکم دیا۔ خود انہوں نے دستے میں ایک دفاعی پوزیشن سنبھالی اور بغیر ہتھیار کے طیارے میں جنگی چالوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستے کو ممکنہ حد تک تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جبکہ باقی دشمن کے ساتھ جنگ میں مصروف رہے۔ سکواڈرن لیڈر رفیقی کی جانب سے یہ عمل ہوا بازی کی تاریخ میں بہترین بہادری اور عزم کی مثال بہترین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنے انجام کو کوئی اہمیت نہ دی اسے نظر انداز کر کے ملک وقوم کی حفاظت کو اہم جانا اور اس دوران ان کا طیارہ مار گرایا گیا اور وہ شہید ہو گئے، لیکن ان کی اس کارروائی نے ان کے دستے کو مزید تین ہنٹر طیارے مار گرانے میں مدد دی۔ سکواڈرن لیڈر رفیقی نے اس طرح جنگ میں مثالی قیادت فراہم کی اور انتہائی سخت مزاحمت کے باوجود شاندار بہادری کا مظاہرہ کیا۔ ان کی قیادت اور بے لوث مثال نے فضائی جنگ کے بعد کے مراحل پر نمایاں اثر ڈالا، جس میں پاک فضائیہ نے کبھی بھی بھاری تعداد اور بہتر سازوسامان سے لیس دشمن کو اپنی شرائط پر مجبور نہ ہونے دیا۔ سکواڈرن لیڈر رفیقی کا طرز عمل جنگ میں قیادت اور بہادری کی اعلیٰ روایت کے مطابق تھا۔ اس کارنامے اور ان کی سابقہ خدمات کے اعتراف میں انہیں بعد از شہادت ہلالِ جرات سے نوازا گیا۔
یہ چند فوجی جوانوں کا ذکر ہے جن کا تاریخ میں بہت کم ذکر ملتا ہے۔
ستمبر 1965کی جنگ میں بہت سے گمنام ہیرو پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کی حفاظت کی ان فوجی جوانوں کا ہمیں تاریخ میں ذکر نہیں ملتا۔ اس جنگ میں بہت سے گمنام ہیروز تھے جن کے بارے میں ہم شاید کبھی نہ جان پائیں۔ ایسے بہادر جوانوں کی دلیری کے کارنامے آئندہ نسلوں تک پہچانے کا انتظام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔