ملکی سلامتی، سیاسی اختلافات سے بالاتر

قادر خان یوسف زئی
پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر، خاص طور پر بلوچستان میں، ملکی سلامتی کی صورتحال کو شدید خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔ 26اگست کے بعد سے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ہم آہنگ حملوں نے 54افراد، بشمول 14سیکیورٹی اہلکاروں، کی شہادت کے سانحے نے قوم پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ واقعہ اور اس کے بعد سیکیورٹی فورسز کے جوابی کارروائی میں 21دہشت گردوں کی ہلاکت نے اس امر کو اجاگر کیا ہے کہ اس خطے میں تنازع کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ صرف اگست کے مہینے میں، پاکستان میں 59دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں 84افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تعداد پچھلے مہینوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ بلوچستان خاص طور پر زیادہ متاثر ہوا، جہاں 28واقعات میں 57افراد شہید ہوئے۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے اپنی حکمت عملی کو مزید سنگین کر دیا ہے، اور اب وہ نہ صرف سیکیورٹی فورسز کو بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو بلوچستان سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ اس سے صوبے میں نسلی کشیدگی اور عدم تحفظ کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ حالیہ دنوں قومی اسمبلی میں وزارت داخلہ کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2023میں مجموعی طور پر 1514واقعات میں 930افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں 580افراد قیمتی جانوں سے محروم ہوئے، جبکہ بلوچستان میں 315اموات ہوئیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تھی۔
جاری تشدد صرف ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ گہری سماجی و سیاسی شکایات کا بھی مظہر ہے۔ بلوچستان جو کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن غربت سے بھی دوچار ہے، طویل عرصے سے نام نہاد قوم پرست جذبات کا مرکز رہا ہے۔ مقامی آبادی اکثر وفاقی حکومت کے ہاتھوں استحصال اور نظرانداز ہونے کا شکار محسوس کرتی ہے اور ان میں احساس محرومی بڑھتا ہے، جس کا فائدہ کالعدم بی ایل اے جیسے دہشت گروہ اٹھاتے ہیں۔ اس پس منظر کو سمجھنا حالیہ حملوں کے مقاصد اور سیکورٹی فورسز کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی قربانیاں قابل تحسین ہیں، لیکن انسداد دہشت گردی کی بڑھتے ہوئے واقعات میں پڑوسی ممالک کا ملوث ہونا بذات خود ایک ایسا پریشان کن معاملہ ہے جس کے لئے حکومت کو ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی ، مملکت ان پالیسیوں کی متقاضی ہے جو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو، اور تمام جماعتوں کے درمیان اتحاد کو فروغ دے تاکہ تشدد کی بنیادی وجوہات کا ازالہ کیا جا سکے۔ مقامی کمیونٹیز کے ساتھ رابطے میں رہنا، ان کی شکایات کا ازالہ کرنا، اور بلوچستان میں مساوی ترقی کو یقینی بنانا امن و استحکام کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور مشترکہ ردعمل وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں، جب دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ایک متحدہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک ایسا اتحاد تشکیل دیں جو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف کو سامنے لائے۔ بلوچستان کی حالیہ کارروائیوں پر، سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی پیش کر سکتی ہیں جس میں ملک کے عوام اور سیکیورٹی فورسز کے لیے مسائل کا ایک ایسا حل ہو جو متفقہ طور پر سب کے لئے قابل قبول ہو۔ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان باقاعدہ ملاقاتوں کا اہتمام ہونا چاہیے جہاں وہ سیکیورٹی کے مسائل پر تبادلہ خیال کریں اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ ردعمل کو یقینی بنائیں۔ جامع انسداد دہشت گردی حکمت عملی تیار کریں دہشت گردی کے پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی رائے شامل ہو۔
ایسی پالیسیاں تیار و عمل درآمد کیں جائیں جو فوری سیکیورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ ان سماجی و اقتصادی مسائل کو بھی حل کریں جو انتہا پسندی کا سبب بنتے ہیں، جیسے غربت، بے روزگاری اور تعلیم کی کمی جو دہشت گرد گروہوں میں نوجوانوں کے شمولیت کا سب سے بڑا سبب بن رہا ہے۔ کمیونٹیز کو انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شامل کرنا، ان کے اعتماد کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور نچلی سطح پر انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کو موثر بنا سکتا ہے۔ سیاسی اور نسلی گروہوں کے درمیان بات چیت اور مفاہمت کو فروغ دینا کشیدگی کو کم کرنے اور ایک زیادہ جامع معاشرے کی تعمیر میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت اور معتدل دھڑوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے، اور ان پسماندہ کمیونٹیز کے مسائل کو حل کیا جائے جو انتہا پسندی کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی مہمات کا آغاز کیا جائے جو رواداری، افہام و تفہیم اور دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کریں تاکہ عوامی رائے کو بدلنے اور انتہا پسند گروہوں کی حمایت کو کم کرنے میں مدد ملے۔
سیاسی جماعتوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے زیادہ بہتر فنڈنگ اور وسائل کی فراہمی کی وکالت کی جائے تاکہ ان کی آپریشنل کارکردگی بہتر ہو سکے۔ سیاسی جماعتوں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان معلومات کے تبادلے کے لیے پروٹوکولز کا قیام کیا جائے تاکہ خطرات کا بروقت مقابلہ کیا جا سکے۔ متاثرین کو تسلیم کرنا اور ان کی مدد کرنا یکجہتی اور اجتماعی ذمہ داری کے احساس کو فروغ دینے میں معاون ہو سکتا ہے۔ ایسے پروگراموں کی وکالت کی جائے جو متاثرین اور ان کے خاندانوں کو نفسیاتی اور مالی مدد فراہم کریں، اور یہ پیغام دیا جائے کہ دہشت گردی کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ متاثرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے یادگاری تقریبات کا اہتمام کیا جائے تاکہ دہشت گردی کے انسانی نقصانات کی یاد تازہ ہو اور متحدہ عمل کے لیے عوامی حمایت کو فروغ دیا جا سکے۔
ان اقدامات کے ذریعے، سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف اتحاد کے لیے ایک مضبوط فریم ورک تشکیل دے سکتی ہیں۔ ایک مشترکہ حکمت عملی نہ صرف سیکورٹی کو مضبوط کرتی ہے بلکہ انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات کو بھی حل کرتی ہے، جس سے ایک زیادہ متحد اور مستحکم معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ موجودہ حالات کی نزاکت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک مشترکہ مقصد ایک محفوظ اور پرامن پاکستان کے لیے کام کریں۔