ابا کہا کرتے تھے!

احمد نوید
بات کچھ یوں شروع ہوئی تھی کہ ابا کہا کرتے تھے۔
ماضی میں ہم مڈل اجیڈ لوگوں کو ابا جو کہا کرتے تھے۔ وہ ہم ما ن لیتے تھے۔
ڈاکٹر آصف رحمان بڑے خوش مزاج اور نفیس انسان ہیں۔ ان کی باتیں سن کے مزہ آتا ہے لیکن کبھی کبھی وہ بہت خوفناک باتیں کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ایک کپ کافی پینے کا اتفاق ہوا۔ تو انہیں ہمیشہ کی طرح پاکستان کے نظام صحت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر آصف کا کہنا ہے کہ ہم لاہور میں ابھی تک ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے، جس میں تمام سہولیات مریضوں کو ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہوں۔ اکثر مریض ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال صرف ٹیسٹ کروانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں جو مریضوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔
ڈاکٹر آصف یورپی ممالک گھوم گھام چکے ہیں، دیکھ چکے ہیں۔ شائد اسی لئے پاکستان کے نظام صحت پر تکلیف کا اظہار کرتی ہیں۔ اس ملاقات میں انہوں نے ایک ایسی بات کہہ دی جو بہت خوفناک ہیں اور شاید ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ بھی۔ میں ڈاکٹر صاحب کی بات سے 100فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ وہ کہتے تھے کہ ہم یورپ سے تو 50سال پیچھے تھے ہی ،لیکن اب شاید ہم انڈیا سے بھی 50سال پیچھے ہو گئے ہیں۔ اس خطے میں سب سے زیادہ تیزی سے آبادی پاکستان کی بڑھ رہی ہے۔ جس کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ ان حالات میں ہم جتنے مرضی ہسپتال بناتے جائیں وہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ نہ کافی ہوتے جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی بات سے شائد ہی کوئی بیوقوف اتفاق نہ کرے۔
طبی اور سماجی امور کے ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی کا بم پھٹنے والا ہے۔ اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو بہت بڑی تباہی ہو گی۔ لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی محکمہ پاپولیشن ثمن رائے اور پرنسپل سمز ڈاکٹر زہرہ خانم کا کہنا تھا کہ آباد ی پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ وسائل میں اضافہ بھی بہت ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق نئی نسل میں بیماریوں کی ایک وجہ کزن اور کاسٹ میرج بھی ہے۔
عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے آباد ی پر کنٹرول کی مہم جاری رہنی چاہیے۔ اس سیمینار میں دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑی وجہ شرح خواندگی میں کمی ہے۔ زیادہ آبادی ہماری معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے،۔ غریب طبقے کو آبادی پر کنٹرول کرنے کی آگاہی دینا وقت کا تقاضا ہے۔
ورنہ آبادی کا بم پھٹ کر سب کو تباہ کر دے گا۔
ڈاکٹر آصف سے مل کر میں لوٹ آیا، مگر دیر تک سوچتا اور فکر مند رہا۔
پچھلی چند دہائیوں کے دوران، ہندوستان ایک قابل ذکر تبدیلی سے گزرا ہے۔ وہ اس وقت عالمی ٹیکنالوجی کے منظر نامے میں ایک اہم قوت بن چکاہے۔ وہ اس وقت عالمی آئی ٹی آئوٹ سورسنگ کا مرکز ہے۔ انڈیا کے سٹریٹجک حکومتی اقدامات اور تعلیمی سرمایہ کاری نے اس تبدیلی کو مزید ہوا دی ہے۔ انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن (ISM)ڈیجیٹل انڈیا کارپوریشن کا مشن ایک فروغ پزیر سیمی کنڈکٹر اور ڈسپلے ایکو سسٹم بنانا ہے۔ جس کا مقصد ہندوستان کو الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ اور ڈیزائن کا عالمی مرکز بنانا ہے۔
ڈاکٹر آصف سے مل کر میں لوٹ آیا، مگر دیر تک سوچتا اور فکر مند رہا کہ پاکستان اور انڈیا ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ مگر!
2023میں، ISMنے بھارت کے لیے چپ تیار کرنے کا ایک بڑا مرکز بننے کا مرحلہ طے کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی ٹیکنالوجی میں اپنے تعاون کو مضبوط کرنے کے لیے 2022میں US-India iCET کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد انڈیا کو قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، جن میں کو انٹم کوآرڈینیشن میکانزم، ٹیلی کمیونیکیشن پر بات چیت، AIاور اسپیس پر تبادلے، سیمی کنڈکٹر سپلائی چین اور امریکی دفاعی ایکسلریشن ایکو سسٹم کا آغاز شامل ہیں۔
ہندوستان نے نو مہینوں کے اندر اندر تمام 22سروس ایریاز میں اہداف کو عبور کرتے ہوئے تیز ترین 5Gرول آئوٹ کے ساتھ نئی تاریخ رقم کی ہے۔ Reliance Jioاور Bharti Airtelنے 2.70لاکھ 5Gسائٹس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 5Gکو اپنانے کے بعد پر ہندوستان کی پوزیشن مزید مستحکم ہوئی ہے، جس میں ان کی اگلی منزل 6Gٹیکنالوجی ہے۔
ہندوستان اپنے شعبوں کو زیادہ کمپیوٹنگ طاقت فراہم کرنے کے لیے ایک AIمشن شروع کر رہا ہے۔ مقصد صحت کی دیکھ بھال، زراعت اور تعلیم جیسے شعبوں میں مسائل سے نمٹنے میں ان کی مدد کرنا ہے۔ ہندوستان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ سے لے کر خلائی تحقیق، دفاعی صلاحیتوں، اور ٹیلی کمیونیکیشن میں تیز رفتا ری سے ترقی کر رہا ہے۔
بات کچھ یوں شروع ہوئی تھی کہ ابا کہا کرتے تھے۔
ماضی میں ہم مڈل اجیڈ لوگوں کو ابا جو کہا کرتے تھے۔ وہ ہم مان لیتے تھے۔
آج انڈیا نے ITکو اپنا ابا مان لیا ہے۔
ہمارے ابا آج بھی جو ہمیں کہتے ہیں ، ہم مانتے ہیں۔