ColumnRoshan Lal

زرداری کی سالگرہ پر کچھ خاص باتیں

روشن لعل
26جولائی صدر آصف علی زرداری کی سالگرہ کا دن ہے۔ سالگرہ کا یہ دن زرداری صاحب کی زندگی میں پہلی مرتبہ نہیں آیا مگر ایسا شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس برس پیپلز پارٹی کے لوگ خاص طور پر پنجاب اور لاہور میں کھل کر اور سرعام ان کی سالگرہ مناتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ وہی پنجاب اور لاہور ہے جہاں 2013کے بعد پیپلز پارٹی کے اپنے لوگ یہکتے دکھائی دیتے تھے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے راضی ہیں لیکن صرف اس شرط پر کہ انتخابی مہم کے دوران اشتہاروں پر آصف علی زرداری کی تصویر نظر آئے۔ پیپلز پارٹی کے اپنے اندر اس طرح کے لوگوں کی موجودگی کی وجہ یہ تھی کہ آصف علی زرداری کے لیے ریاستی و غیر ریاستی مشینری استعمال کرتے ہوئے جو گمراہ کن پراپیگنڈا کیا گیا اس کے منفی اثر سے ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ یہاں ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت آصف علی زرداری کو پاکستانی سیاست کا ایسا کردار بنا کر پیش کیا گیا کہ جس کے لیے مثبت خیالات کا اظہار کرنے والوں کچھ عرصہ پہلے تک ایسے دیکھا جاتا تھا جیسے انہوںنے خود کو پاگلوں کی صف میں کھڑا کر دیا ہو۔ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران آصف علی زرداری کے خلاف جس قدر تسلسل کے ساتھ منفی پراپیگنڈا کیا گیا اس کے بعد لوگوں کو حیرانی ان کے متعلق منفی سوچ رکھنے والوں پر نہیں ہوتی تھی بلکہ تعجب کا اظہار ایسے لوگوں کے لیے کیا جاتا تھا جو طاقتور پراپیگنڈے کے باوجود ان کی ذات اور کاموں کے متعلق مثبت رائے رکھتے تھے۔ جن لوگوں کی رائے آصف علی زرداری کے لیے مثبت رہی ، یقینا انہوں نے صرف ان کی ذات کے کسی ایک پہلو کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ بلا تعصب ہر زاویے سے ان کی شخصیت کا جائزہ لیا تھا۔
آصف علی زرداری کی زندگی کے کتنے پہلو ہیں ، انہیں گزرے ہوئے دنوں میں کن کن محاذوں پر لڑنا پڑا اور آج وہ کون سے محاذوں پر نبرد آزما ہیں، یہاں یہ سب کچھ سوچنے اور سمجھنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ آصف علی زرداری کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے انہیں زیادہ تر صرف اس عینک سے دیکھا جاتا رہا کہ فروری 2008کے عام انتخابات تک پیپلز پارٹی ملک کے سیاسی میدان میں کہاں موجود تھی اور اس کے بعد منعقد ہ انتخابات میں زرداری کی قیادت نے اس کہاں لا کھڑا کیا ۔ آصف علی زرداری کی ذات کا اس ایک زاویے سے جائزہ لینے والوں میں صرف پیپلز پارٹی کے ناقد ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جواس پارٹی میں انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے سیاسی سفر پر سوال کوئی ایسا استفسار نہیں جسے نامناسب قرار دے دیا جائے مگر اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت اگر ضروری حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی صرف انتخابی نتائج پر انحصار کرکے نتیجہ اخذ کر ے تو ایسا کرنے والے کی دانش کو پختہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حیثیت کو اطمینان بخش یا غیر اطمینان بخش سمجھنے کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ پارٹی کہاں سے کہاں پہنچ گئی بلکہ یہ حقیقت زیادہ اہم ہے کہ یہ پارٹی اب بھی قائم و دائم ہے۔ اس ملک میں ریاستی اداروں اور مخالف سیاسی جماعتوں نے جس قدر تسلسل اور بے رحمی کے ساتھ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوششیں کیں ایسی کوششیں کبھی کسی دوسری پارٹی کے خلاف نظر نہیں آئیں۔ ایسی بے رحم کوششوں کے باوجود بھی اگر پیپلز پارٹی عسکری اور عدالتی سہولت کاری کے بغیر قائم و دائم ہے تو اس کی وجہ صرف آصف علی زرداری کی ذات اور حکمت عملی ہے۔
جن لوگوں نے آصف علی زرداری کا عمیق نظروں سے جائزہ لیا وہ انہیں ملک میں جاری خاموش انقلاب کا داعی تصور کرتے ہیں۔ انقلاب کا مطلب ایسی کایا پلٹ تبدیلی تصور کیا جاتا ہے جو اکثر کسی پرتشدد تحریک کے ذریعے برپا کی جاتی ہے۔ ایسی انقلابی تبدیلی کو پرتشدد تحریک کے دوران جلائو گھیرائو کا راستہ اپنائے بغیر ممکن تصور نہیں کیا جاتا ۔ جلائو گھیرائو کرنے کی بجائے گر کوئی تبدیلی پرتشدد تحریک شروع کیے بغیر رونما ہو جائے تو اسے خاموش انقلاب کہا جاتا ہے۔ آصف علی زرداری نے یہاں ایک ایسا ہیخاموش انقلاب برپا کیا جس کے اثرات ہمارے سماج، ثقافت، معیشت اور سیاست پر واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے اس خاموش انقلاب کا نام اٹھارویں ترمیم ہے۔ اس ملک کو اٹھارویں ترمیم جیسے خاموش انقلابوں کی مزید ضرورت بھی ہے مگر افسوس کہ جن لوگوں کے ذاتی معاشی و سیاسی مفادات کو اٹھارویں ترمیم سے نقصان پہنچا انہوں نے اپنے عہدوں کا اثر و رسوخ استعمال کر کے ملک کے سیاسی عمل کا رخ پارلیمنٹ کی بجائے دھرنوں، مظاہروں اور گالم گلوچ جیسی لاحاصل سرگرمیوں کی طرف موڑ دیا۔
آصف علی زرداری نے ستمبر 2008میں پہلی مرتبہ پاکستان کا صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد اس خواہش کا اظہار کیا کہ جس قدر جلد ممکن ہو وہ بحیثیت صدر خود کو حاصل تمام آمرانہ اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جونہی اٹھارویں ترمیم 8اپریل 2010کو قومی اسمبلی اور 15اپریل 2010کو سینیٹ سے منظور ہوئی تو آصف علی زرداری نے فوری طور پر 19اپریل 201کو اٹھارویں ترمیم کے منظور شدہ مسودے پر دستخط کر کے خود کو حاصل آمرانہ اختیارات سے دستبرداری اختیار کر لی۔ 19اپریل 2010وہ دن تھا جب آصف علی زرداری نے افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے آخری مرتبہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ( ر) اشفاق پرویز کیانی کو ایوان صدر میں منعقدہ تاریخی تقریب میں مدعو کیا اور وہاں اس وقت کے چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی موجودگی میں اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر دستخط کیے۔
آصف علی زرداری سے پہلے یہاں ایسے لوگ بھی حکمران رہے جنہوں تمام ریاستی اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرنے اور امیر المومنین بننے کے لیے 15ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کی سر توڑ کوششیں کیں۔ پھر یہاں وہ شخص بھی حکمران بنا جس نے سترہویں آئینی ترمیم کے ذریعے ایسا فرد واحد بننے کی کوشش کی جس کی مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی نہ ہل سکے ۔ پھر یہاں حکومت اس انسان کے سپر کردی گئی جو اپنی ذات اور ناک سے آگے کچھ دیکھنا ہی نہیں چاہتا اور اس نے ایسی قانون سازی کی کوشش کی کہ جس سے ہر کوئی اس کی ذات کا مطیع بن کر رہ جائے۔ ایسے حکمرانوں کے درمیان آصف علی زرداری واحد ایسی مثال ہے جس نے آمرانہ اختیارات کوشش یا خواہش سے حاصل نہیں کیے تھے بلکہ اسے آئینی طور پر ودیعت ہوئے تھے۔ زرداری نے ان اختیارات کے بل پر خود کو مضبوط بنانے کی بنانے کی بجائے پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کا خواب دیکھا اورجس قدر جلد ممکن تھا یہ اختیارات اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو سونپ دیئے۔ افسوس کہ زرداری کا پارلیمنٹ کو مضبوط تر بنانے کا خواب ابھی ادھورا ہے۔ آصف علی زرداری کی 69ویں سالگرہ پر ان کے لیے نیک تمنائوں کے ساتھ اس خواہش کا بھی اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو مضبوط تر بنانے کا خواب پورا کرنے کی مزید کوششیں جاری رکھیں۔

جواب دیں

Back to top button