ColumnImtiaz Aasi

مسلم لیگ سے آوازیں اٹھنے لگیں

امتیاز عاصی
یہ مسلمہ حقیقت ہے عدلیہ آج بھی ملک کے عوام کی آخری امید ہے باوجود دبائو کے آزادانہ فیصلے کر رہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے ماضی میں بعض ججوں نے ذاتی مفادات یا کسی دبائو کے پیش نظر فیصلے کئے لیکن عدلیہ میں باضمیر جج صاحبان موجود ہیں۔ اسلام آباد دہائی کورٹ کے چھ ججوں کی نالش نے عدلیہ کی روح میں نئی جان ڈالی ہے بلکہ ماتحت عدلیہ کو بھی حوصلہ ملا ہے۔ مخصوص نشستوں کے حالیہ فیصلے سے حکومتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ مسلم لیگ نون اس فیصلے کے بعد ایوان میں دوسرے نمبر پر آگئی ہے۔ مخصوص نشستوں کے اس فیصلے سے اور کئی نقصانات ہوئے ہیں جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ۔ اس فیصلے کا حکومت کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے وہ آئین میں ترمیم نہیں کر سکے گی۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے اس فیصلے نے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کر دیا ہے کم ازکم عوام کے ذہنوں میں عدلیہ بارے جو وسوسے اور شبہات تھے دم توڑ گئے ہیں۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے نے پی ٹی آئی کی سیاسی قوت میں اضافہ تو کیا ہی ہے اسے عوام کا اور اعتماد حاصل ہو گیا ہے۔ عجیب صورت حال ہے پی ٹی آئی کے بانی اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے اس جماعت کے بہت سے رہنماوں اور ورکرز کو مقدمات کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لینے کے باوجود اس کی مقبولیت کو ختم نہیں کر سکا ہے بلکہ اس کی مقبولیت رو ز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں جن اقوام میں انصاف نہیں ہوتا تھا ان کی تباہی کا بڑی تفصیل سے ذکر آیا ہے لیکن ہم عبرت حاصل نہیں کرتے۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں فیصلے کرتے وقت حق تعالیٰ کے احکامات کو بھلا دیتے ہیں جیسے ہمیں اس کے روبرو پیش نہیں ہونا حالانکہ ہمیں ایک روز ایک ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں بے لاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا ترقی کی طرف گامزن ہے ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں جس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اقتدار کی بھوک سے نکلنے کو تیار نہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ذاتی مفادات اور اثاثوں میں اضافے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں جو لوگ اقتدار میں تھے الیکشن کے بعد انہی کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے جن کی کارکردگی صفر ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے بلند بانگ دعووں کے باوجود سرمایہ کاری نام کی کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ کوئی ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ دہشت گردی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ہمسایہ ممالک سے ہمارے تعلقات خوشگوار نہیں۔ وزیر اعظم کی اپنی جماعت سے آوازیں اٹھ رہی ہیں ہمیں اقتدار چھوڑ دنیا چاہیے۔ آخر کیوں کوئی وجہ تو ہے جو مسلم لیگ نون کے اپنے لوگ حکومت چھوڑنے کو مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمیں الیکشن کمیشن پر حیرانی ہوتی ہے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ٹھیک نہیں تھے ۔ بھئی ملک میں ماسوائے جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جس کے انتخابات پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا جب کہ باقی جماعتوں میں الیکشن کون سا الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ہوتے ہیں۔ دراصل الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کو تختہ مشق بنانا مقصود تھا سب کچھ کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ٹی ایل پی کو دھرنے کی اجازت دے دی گئی اگر نہیں دی گئی تو وہ لوگ فیض آباد میں کیسے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں ۔ جماعت اسلامی کو بوجہ محرم دھرنا موخر کرنے کی درخواست کی گی جو انہوں نے قبول کر لی۔ سوال ہے ٹی ایل پی کو حکومت فیض آباد نہ آنے کی اجازت دیتی تو وہ کیسے دھرنا دے سکتے تھے۔ حکومت کی دوغلی پالیسی سے عوام کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرکے نہ صرف جمہوریت کو مضبوط کیا ہے بلکہ مضبوط جمہوریت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے سے حکومت بد ل نہیں سکتی تاہم اگر پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور دیگر چھوٹی جماعتیں حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا چاہیں تو لا سکتی ہیں۔1985کے بعد اس قسم کا ماحول آیا ہے دو جماعتوں کی باریاں لگی ہوئی ہیں انہی کو اقتدار میں لایا جاتا ہے اس کے برعکس عوام ان دونوں جماعتوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ حکومت پر ہنسی آتی ہے پی ٹی آئی کو پنجاب میں کہیں جلسہ نہیں کرنے دیا جا رہاہے حالانکہ جلسے اور جلوس جمہوریت کی روح ہوتے ہیں۔ دو سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو تین ماہ کے لئے ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا ہے کیا یہ کوئی مستقل حل ہ۔ حکومت کی کوئی مستقل پالیسی نہیں بس ایڈہاک ازم پر کام چلایا جا رہا ہے۔ تاجروں سے ٹیکس کی وصولی موجودہ حکومت کا بڑا امتحان ہے۔ جس شعبے پر ٹیکس لگایا جاتا ہے وہ ہڑتالوں کی کال دے دیتے ہیں۔ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جاتا عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کو حکومت دی جاتی تو حالات بہتر ہوتے۔ سیاسی اور معاشی بحران والے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ مملکت خداداد کو قدرت نے انمول خزانوں سے مالا مال کر رکھا ہے بدقسمتی سے منصوبہ بندی نہ ہونے سے ایسے منصوبے برسوں سے التواء کا شکار ہیں۔ بھیک مانگنے سے کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا بھکاریوں کی دنیا میں کہیں عزت نہیں ہوتی چنانچہ یہی وجہ سے ہمیں اب کوئی قرض دینے کو تیار نہیں۔ ملکی ترقی کا راز انہی باتوں میں پنہاں ہے ہم آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں تو ملک سے سیاسی بحران کا خاتمہ ممکن ہے۔ وزیراعظم کا دعویٰ ہے وہ اپنے احکامات پر عمل نہیں کرا سکے تو استعفیٰ دے دیں گے۔ کچھ دال میں کالا لگتا ہے ایک طرف لیگی رہنما حکومت چھوڑنے کا کہہ رہے ہیں دوسری طرف وزیراعظم استعفیٰ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ملک میں کوئی سیاست دان ایسا نہیں جو سب جماعتوں کو ملکی مفاد میں یکجا کر سکے۔ نواب زادہ نصراللہ جیسے سیاست دان ناپید ہیں جو اپنی زرعی اراضی بیچ کر سیاست کرتے تھے لیکن اس دور کے سیاست دانوں کو ملک و قوم کی فکر کی بجائے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرنے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button