’معاملہ ذات کا نہیں ملک کا ہے‘، نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیل پر عمران خان کا تحریری جواب
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں کے معاملے پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپنا تحریری جواب دجمع کروادیا، اپنے جواب میں انہوں نے لکھا کہ یہ یہ میری ذات کا نہیں بلکہ ملک کا معاملہ ہے۔
اپنے جواب میں عمران خان نے حکومت کی اپیلیں خارج کرنے کی استدعا کر دی۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ کسی شخص کی کرپشن بچانے کے لیے قوانین میں ترامیم کرنا عوامی مفاد میں نہیں، کرپشن معیشت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں، مجھ سے دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم کا فائدہ آپ کو بھی ہو گا مگر میرا موقف واضح ہے یہ میری ذات کا نہیں بلکہ ملک کا معاملہ ہے۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اسی طرح دبئی لیکس پر کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں جس میں مختلف پبلک آفس ہولڈرز اور ان لوگوں کی آف شور جائیدادوں کا انکشاف ہوا جنہیں سرکاری خزانے سے ادائیگی کی جاتی ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی کو یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ انہوں نے دبئی میں جائیداد خریدنے کے لیے رقم کیسے کمائی اور کن ذرائع سے بیرون ملک بھیجی (چاہے یہ منی لانڈرنگ سے ہو یا کسی اور طریقے سے)۔
عمران خان کے مطابق نواز شریف، زرداری خاندان، راؤ انوار اور کئی سابق جرنیلوں کی جائیدادیں بھی بے نقاب ہو چکی ہیں، نیب یا ایف آئی اے کو ان کیسز کی فوری انکوائری کرنی چاہیے تھی لیکن نیب ایسا نہیں کر رہا کیونکہ انہیں میرے خلاف خصوصی طور پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، انصاف کا یہ منتخب نفاذ اس بدعنوانی کا واضح اشارہ ہے جو ہمارے نظام میں جڑ پکڑ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے بیرون ملک اثاثہ جات ہوں تو ان کی تفصیلات پہلے ایم ایل اے کے ذریعے حاصل کی جاتی تھی لیکن اس کو بھی ختم کردیا گیا، اس سے پہلے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری فرد پر تھی کہ ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مماثل ہو، نئے قانون کے تحت نیب کو ثابت کرنا ہوگا کہ پیسہ کرپشن کے ذریعے کمایا گیا، پبلک آفس ہولڈرز کی آمدنی کے ذرائع معروف ہیں، اور اگر کوئی رقم ان کے خاندان یا ملازمین کے نام ظاہر ہوتی ہے، تو ان سے اس کی اصلیت ثابت کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔
عمران خان نے تحریری جواب میں بتایا کہ کرپشن سے پاک پاکستان مزید سرمایہ کاری کو راگب کرے تاہم ان ترامیم کا مقصد ملکی اداروں کو کمزور کرنا اور طاقتوروں کو بچانا ہے، سپریم کورٹ کو ان سب معاملات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی آئین کے اندر رہ کر کرنی چاہیے، نیب اگر اختیار کا غلط استعمال کرتا ہے تو ترامیم اسے روکنے کی حد تک ہونی چاہئیں، اختیار کے غلط استعمال کی مثال میرے خلاف نیب کا توشہ خانہ کیس ہے، نیب نے میرے خلاف کیس بنانے کے لیے ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہار کو 3 ارب 18 کروڑ کا بنا دیا۔