الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد،سپریم کورٹ نے معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا
سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی استدعا مسترد کرتے ہوئے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں، آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس نعیم اختر نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر چیف جسٹس شہزاد ملک نے 12 جون کو آٹھ ٹربیونلز کی تشکیل کے احکامات جاری کیے تھے جبکہ 14 جون کو ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کا الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر اور پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل میں کہا کہ 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کے لیے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھےاور ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگی گئیں، خطوط میں ججز کے ناموں کے پینلز مانگے گئے، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دیے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹربیونلز کے لیے نوٹیفائی کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 26 اپریل کو مزید دو ججز کو بطور الیکشن ٹربیونلز تشکیل دیے گئے۔
دوران سماعت ہائی کورٹ کے لیے قابل احترام کا لفظ کہنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ہیں، یہ ججز کے لیے کہا جاتا ہے۔ یہاں پارلیمنٹیرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے، ایک دوسرے سے گالم گلوچ ہوتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ احترام ہو، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے؟ کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چار ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازع نہیں ہوا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے؟ کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازع بنانا لازم ہے؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازع تھا، رجسڑار ہائی کورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائی کورٹس کو خطوط لکھے، تنازع نہیں ہوا، لاہور ہائی کورٹ کے علاوہ کہیں تنازع نہیں ہوا، بلوچستان ہائی کورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ کوئی انا کا مسئلہ ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آیا الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بات کیوں نہیں کی؟ آئین میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ کسی جج سے ملاقات نہیں کرسکتے، ملاقات کرنے میں انا کی کیا بات ہے؟ دونوں ہی آئینی ادارے ہیں، الیکشن کمیشن متنازع ہی کیوں ہوتا ہے؟ آپ لوگ الیکشن کروانے میں ناکام رہے۔
قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کی جانب سے جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوالات اٹھا دیے۔
انھوں نے کہا کہ اگر آرڈیننس سے کام چلانا ہے تو پارلیمان کو بند کر دیں ،آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے، آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن سی نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے آئین و قانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پر حلف نہیں لیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آرڈیننس کا دفاع نہیں کررہا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیسز کی ذمہ داری میری ہے، چیف جسٹس نے کہا وکیل سے مکالمہ کیا کہ اپنی کمزوری کو وجہ نہ بنائیں، وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ میں نے آخری بار سنا تھا تو لاہور ہائی کورٹ میں شاید 62 ججز تھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ٹربیونلز تشکیل سے متعلق صدارتی آرڈیننس پر ریمارکس دیے کہ ریٹائرڈ ججزکا قانون کب بنایا گیا؟ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تبدیلی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ایک طرف پارلیمان نے قانون بنایا ہے، پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ آرڈیننس لانے کی کیا وجہ تھی ؟ کیا ایمرجنسی تھی ؟ الیکشن ایکٹ توپارلیمان کی خواہش تھی، یہ آرڈیننس کس کی خواہش تھی؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارلیمان کی وقعت زیادہ ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے ہائی کورٹ کے فیصلے کی نفی کی گئی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو ہائی کورٹ کے کچھ ججز پر تحفظات ہیں؟ لاہور ہائی کورٹ کے حوالے سے ایسے ریمارکس کو ہم تسلیم نہیں کریں گے،پارلیمان کے قانون کے بعد آرڈیننس کدھر سے آگیا؟ کوئی ایمر جنسی ہوتی تو سمجھ میں آتا ہے، یہ بھی تو الیکشن میں مداخلت ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا کہ کیا آرڈیننس کو چیلنج نہیں کیا؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آرڈیننس کو لاہور، اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج کیا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ مختلف ہائی کورٹس کیوں؟ آرڈیننس تو پورے ملک میں لگے گا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے نو امیدواروں کو فریق بنانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کے لیے روک نہیں رہے،ممکنہ طور پر پیر کے روز چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بطور جج سپریم کورٹ حلف لیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل دو ججز اس وقت کراچی اور لاہور رجسٹری میں ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس آئندہ ہفتے ہی ہوگا۔