’’سیاسی رونمائیوںکا سماں ‘‘

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
لیڈر کے چاہنے والوں کی تعداد بظاہر کبھی کم ہوتی دکھائی نہیں دی، ایک لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ جو تاریخی لیڈر تھے، جن کے مد مقابل ہندو بھی تسلیم کرتا تھا کہ جناحؒ نے اپنے نظریے سے طاقتور ریاست سے آزادی حاصل کی۔ اپنے نظریے سے اپنے سے طاقتوروں کو شکست سے دو چار کیا، دنیا بھر کے تمام خدشات کو مٹی کر دیا۔ اب تو سیاست جمہوری نہیں رہی بلکہ پیری مریدی کی سی شکل اختیار کر چکی ہے۔ لیڈر کی کارکردگی سے قطع نظر ووٹر نے مریدوں جیسا کردار اختیار کر لیا ہے۔ اب وہ یہ نہیں سوچتا کہ نعروں یا بیانوں سے اس کی ضروریات زندگی میں کتنی بہتری رونما ہوئی ہے۔ بانی تحریک انصاف قسمت کا دھنی ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی ناکام پالیسیوں کو سیاسی طور پر کیش کرا چکا ہے۔ اب ان سیاسی جماعتوں کے پاس اس کا توڑ نہیں رہا۔ چند روز پہلے سابق وزیر اعظم و بانی چیئرمین تحریک انصاف ایک عرصے بعد عدالت کے حکم پر ویڈیو آن لائن حاضر ہوئے، میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے روم میں بیٹھنے کی جگہ کم پڑ گئی تھی۔ وہاں موجود لوگ بانی پی ٹی آئی کو دیکھنے کے لیے بے قرار نظر آ رہے تھے جن میں زیادہ تر خواتین کی تعداد تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک عورت بانی کے بکھرے بالوں کو سنوارنے کے اشارے کر رہی تھی لیکن بانی تحریک انصاف اس کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ نیلی شرٹ پہنے بانی چیئرمین تحریک انصاف کو پوری سماعت میں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی کے لیے اتنی دیر خاموشی کافی بھاری لگ رہی تھی۔ نیب ترامیم کے کالعدم ہونے سے متعلق اپیل کی سماعت کے کچھ لمحے بعد بانی کی تصویر منظر عام پر آ گئی۔ 15 اگست2023 سے لے کر اب تک یہ سب سے بڑی سیاسی رونمائی تھی۔ عاشقوں نے جھوم کر نیلے رنگ کو سراہا ۔ پس منظر اور پیش منظر دونوں قابل مطمئن تھے۔ بات کہیں اور نکل گئی۔ ہمارے ہاں اب سیاسی لیڈروں کو پیر کا درجہ مل چکا ہے۔ ہماری جمہوری سیاست میں نیا دور آ ہو چکا ہے۔ جماعتوں کے حوالے سے سچ لکھنے والوں کے خلاف کھلے عام مغلظات دی جاتی ہیں۔ کہنے کو جمہوریت میں ہر فرد کو آزادی ہے، لیکن اس آزادی نے معاشرتی اقتدار کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ جس کا جو جی آئے کرتا پھرے، چند سال سے ایسی سیاسی رونمائیاں ہوئی ہیں جس سے جمہوری نظام کمزور ہوا ہے، بلو رنگ پر متوالوں پرجوش ہیں، متوالوں، مریدوں کا کارکردگی پر کوئی سوال نہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ قوم کی پوری حقیقی رہنمائی کسی لیڈر نے نہیں کی۔ معاشی مضبوطی کے سٹرکچر پر کوئی کام نہیں ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تاجر کا کام منافع کمانا ہے۔ حکومت کا کام اس منافع کو آئینی حدود میں رکھنا ہے۔ ہمارے ہاں حکومت ایسا کرنے میں ناکام ہے، اس کی وجہ پارلیمان میں بیٹھنے والے خود کاروباری ہیں۔ ایسی رونمائیاں ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ میاں محمد نواز شریف کی علاج کے بعد واپسی پر ہاتھ پر سفید کبوتر پر مریدوں نے تعریفوں کے پل بند دئیے۔ مریدوں نے ایسا سماں بندھا جیسا کہ پاکستان کے مسائل کل ہی ختم ہو جائیں گے لیکن کیا ہوا، سادی گل ہو گئی ہے، کے بعد بھی چوتھی بار باری نہ مل سکی۔ پارٹی صدارت ملنے کے بعد خطاب میں قوم سے ساتھ نہ دینے کے شکوے سے باہر نہ نکلے سکے۔ میں بات کر رہا تھا مریدوں کی ، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا سپورٹر کہنے لگا۔ دیکھا وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی پلاننگ، کیسے روٹی سستی ہوئی ہے۔ ایسے مریدوں کو کیسے معاشی صورتحال سمجھ آئے گی۔
ساری قوم روٹی مکان کے پیچھے لگی ہوئی ہے، کسی کو ہوش نہیں ہے کہ 2کروڑ 60لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ لیڈروں نے قوم کو بنیادی مسائل کے علاوہ کچھ سوچنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اس وقت وفاق اور ملک کے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ میاں نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور ان کے بھائی دوسری دفعہ وزیر اعظم ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اس کے علاوہ اور کیا چاہتی ہے، قوم سے کس طرح کا ساتھ چاہتی ہے۔ اس وقت ملک کی چاروں اسمبلیوں میں چند خاندانوں کے اکثریتی لوگ بیٹھے ہیں۔ جمہوری لکھتے اور پڑھتے ہیں لیکن انتخابات پر آج تک کسی جماعت کا شفافیت پر یقینی نہیں۔ ان کے رویے ڈکٹیٹر والے ہیں اور ڈکٹیٹر شپ کو برا سمجھتے ہیں۔
1970ء کے بعد سے سیاسی لیڈروں نے اقتدار کے حصول کو اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات سے وابستہ سمجھ لیا۔ جلسے جلوسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنا کر قوم کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی بھی حقیقت تک نہیں جانا چاہتا۔ اپنی وفا داری اپنے مفادات تک ہی محدود کی ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کیسے فلاحی ہو سکتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے اور اس کا کردار بھی حقیقت ہے۔ ہمارے ہاں وتیرہ بن چکا ہے، مفادات کا تحفظ کرو اور دوسروں کو الزامات کی بھینٹ چڑھا دو ۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کیلئے آسان کام ملکی اداروں پر الزامات کی سیاست کرنا اور خود کو پوتر ثابت کر کے اپنے لیے راستہ ہموار کرنا۔