چل میرے دل کھلا ہے میخانہ

شکیل امجد صادق
جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے تھے اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ہے ، تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے تھے۔ اگر وہ مہمان قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ہے۔اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ہے۔ آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتی ہیں اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے۔ لہٰذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں اور اگر آپ پیغام نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش آمدید۔۔۔ گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے ایک بڑا ایک چھوٹا ۔۔۔۔اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ہے لہٰذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے ۔ لہٰذا اس کے استقبال کے لئے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی۔ عثمانی ترکوں کے صدقہ دینی کا انداز بھی کمال تھا کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دکاندار اس سے پیسہ لئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا۔ یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا۔۔۔۔کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا تھا۔ اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ کی عمر کیا ہے؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ہے بلکہ یہ کہتا بیٹا ہم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ کیسا ادب تھا؟ کیسا عشق تھا ؟ ان لوگوں کا ؟کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے اور ہماری میراث کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اب جدید دور کی مسلمان رکھوالوںکی حالت زار پر نظر دوڑاتے ہیں۔ پولیس موبائل آکے سڑک کی ایک جانب رکتی ہے۔ اُس میں سے ایک چاق چوبند جوان جمپ لگا کر باہر نکل آتا ہے۔ سب سے پہلے وہ کیلے والی گاڑی پر جاتا ہے اور ریڑھی بان سے بڑی تمکنت سے کہتا ہے۔اوئے جلدی سے ایک درجن کیلے ڈال شاپر میںکیلے والے نے کچھ کہے سنے بغیر کیلے شاپنگ بیگ میں ڈال کے دے دی ۔ وہاں سے وہ جوان خربوزے والے کی گاڑی تک جاتا ہے اور دو بڑے سائز کے خربوزے اٹھا کے بولا۔۔ اوئے اسے جلدی شاپر میں ڈال خربوزے والا دوسرے گاہک سے بھائو تائو میں مصروف تھا۔ اُس نے سُنی ان سُنی کی تو پولیس والے نے چیخ کے کہا۔ اوئے سنتا نہیں ہے بغیرت۔۔ جلدی شاپر میں ڈال۔۔ صاحب جی کا روزہ ہے ۔۔ ویسے ہی پارہ ہائی ہے آج خربوزے والے نے جلدی سے خربوزے شاپنگ بیگ میں ڈال کے اُس کے ہاتھ میں تھمائے ۔۔ وہاں سے وہ جوان چیکو والے کی گاڑی کے پاس گیا۔۔ چیکو والا دوسرے گاہکوں میں مصروف تھا۔ گاڑی پر شاپنگ بیگ رکھے ہوئے تھے۔ پولیس والے نے ایک بیگ اٹھایا اور اپنے ہاتھوں سے سیلف سروس کوئی بارہ پندرہ کے قریب چیکو بیگ میں ڈالے اور آگے بڑھ گیا۔ چیکو والا چپ چاپ اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔ اب باری تھی دھی بھلے اور چاٹ والے کی۔۔ پولیس والے نے اسے مخاطب کرکے کہا۔اوئے کالے! جلدی سے آٹھ پلیٹیں چاٹ کی پیک کر ۔۔ چٹنی پیاز زیادہ ڈالنا۔۔ آج صاحب جی کا روزہ ہے۔۔ بہت غصے میں ہیںدہی بھلے والا بیچارہ گاہک کو چھوڑ کے پہلے صاحب کے لئے چاٹ بنانے لگا۔ اُس سے چاٹ لے کے جوان شربت والے کی گاڑی پر آیا۔ ہاں بے جلدی کر ایک تھیلی میں آٹھ دس گلاس پیک کرکے دے دے۔ اور سن برف بھی ڈالیو ۔ صاحب جی کو آج بہت روزہ لگا ہے۔۔ ابھی راستے میں ایک رکشے والے کی خوب دھنائی کی ہے۔۔ بغیرت موبائل کا راستہ کاٹ رہا تھا۔ صاحب جی نے خوب ہاتھ صاف کیا ہے۔ یہ تو روزے کی وجہ سے وہ تھک گئے ورنہ رکشے والا ہسپتال میں پڑا ہوتاشربت والے نے جلدی جلدی شربت پیک کرکے جوان کو دیا۔ ان سارے ٹھیلے والوں میں سے کسی میں بھی یہ ہمت نہ تھی کہ پیسے کا نام بھی لیتا۔۔ شاید روز ہی ان کے ساتھ یہ ہوتا ہو۔ جوان سارے تھیلے دونوں ہاتھوں میں اٹھائے۔۔ جھومتا جھامتا موبائل تک گیا۔ دوسرے جوان نے سامان موبائل میں ٹرانسفر کرنے میں اس کی مدد کی۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے صاحب جی کے چیخنے اور گندی گالی دینے
کی آواز آئی۔ اوئے ۔۔۔۔۔۔ کے۔۔۔۔۔۔۔ بچّے! کھجور تو لایا نہیں۔۔ روزہ تیری ماں کے ہاں دہی بھلے سے کھولتے ہیں۔جوان دوڑتا ہوا کھجور والے کی طرف گیا اور اسی وقت مسجد سے اللہ کی کبریائی کی صدا بلند ہوئی۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبرروزے دارو روزہ افطار کر لو۔اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے روزہ افطار کر لو۔بقول شاعر
فصلِ گل ہے سجا ہے میخانہ
چل میرے دل کھلا ہے میخانہ