ColumnRoshan Lal

پاسپورٹ کا محکمہ اور مفاد عامہ

ر وشن لعل
تمام قومی و صوبائی محکموں کی طرح پاسپورٹ جاری کرنے کے لیے بنائے گئے ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کا محکمہ اور پورے ملک میں موجود اس کی برانچیں بنانے کا جواز مفاد عامہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ پاسپورٹ جاری کرنے کے لیے جو محکمہ مفاد عامہ کے تحت بنایا گیا، اس کی شادمان لاہور میں واقع برانچ میں جا کر یہ محسوس ہوا جیسے وہاں تعینات عملے کا مقصد مفاد عامہ کا تحفظ نہیں بلکہ محکمانہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی جیبیں بھرنا ہے ۔
شارع ایوان، صنعت و تجارت، شادمان لاہور پر محکمہ پاسپورٹ کا ایک ریجنل دفتر موجود ہے۔ راقم نے خاتون خانہ کا پاسپورٹ بنوانے کے لیے شادمان آفس کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ تقریباً تین برس قبل اسی دفتر سے کسی قسم کی بدعنوانی اور بد نظمی کا سامنا کیے بغیر ذاتی پاسپورٹ بنوایا تھا۔ سابقہ تجربہ کے برعکس اس مرتبہ پاسپورٹ آفس شادمان لاہور میں دیدہ دلیری سے کی جانے والی بدعنوانی کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جن سے یہ ظاہر ہوا کہ وہاں تعینات سرکاری ملازم مفاد عامہ میں نہیں بلکہ ایجنٹوں کی مرضی اور خواہشوں کے مطابق کام کرتے ہیں۔
گیارہ مارچ کی صبح پاسپورٹ آفس جلد پہنچنے کی کوششوں کے باوجود ٹریفک جام کی وجہ سے ساڑھے نو بجے سے پہلے پہنچنا ممکن نہ ہو سکا۔ پاسپورٹ آفس کے گیٹ پر پہنچتے ہی وہاں ایجنٹوں کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ ایجنٹوں کی باتیں سنی ان سنی کر کے جب دفتر کے گیٹ پر پہنچے تو وہاں کھڑے گارڈ نے بتایا کہ اگر پاسپورٹ فیس پہلے سے بینک میں جمع ہے تو صرف خواتین اس راستے سے اندر جاسکتی ہیں کیونکہ مردوں کے لیے دفتر کے بغل میں الگ داخلی راستہ بنایا گیا ہے اور عورتوں کے ساتھ آئے ہوئے مرد دفتر سے ملحقہ کالج کی اوپری منزل پر بنائے گئے ویٹنگ روم میں انتظار کر سکتے ہیں۔ کرائے پر لیے گئے ویٹنگ روم کی سیڑھیوں سے اندر تک پھیلی ہوئی گندگی اور ٹوٹی ہوئی کرسیاں دیکھ کر فوراً یہ احساس ہوگیا کہ وہاں کوئی مرد کیوں موجود نہیں ہے۔ انتظار گاہ کی دگر کوں حالت دیکھ کر ذہن یہ سوچنے کی طرف مائل ہوا کہ پاسپورٹ آفس کے اندر کے حالات بھی ایسے ہی ہو سکتے ہیں۔ اندر کے حالات جاننے کے لیے جب خاتون خانہ کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان سے پہلے آئی ہوئی پچیس تیس عورتوں اور بعد ازاں اتنی ہی تعداد میں آئی خواتین کی لائن گزشتہ پون گھنٹہ سے جوں کی توں ہے مگر دفتر کا عملہ ایجنٹوں کے لائے ہوئے لوگوں کو ٹوکن جاری کرنے کے لیے اس راستہ سے دھڑا دھڑ اندر بھیج رہا ہے جو عورتوں اور بزرگ شہریوں کے لیے مخصوص ہے۔ اس صورتحال سے آگاہی کے بعد جب پاسپورٹ آفس کے بغل میں کھڑے مردوں کو دیکھا تو ان کی لائن کو بھی جامد پایا۔
پاسپورٹ آفس میں انتہائی بے شرمی اور دیدہ دلیری سے ہونے والی بدعنوانی دیکھ کر جب کسی ذمہ دار افسر تک احتجاج اور شکایت پہنچانے کے لیے اس کے متعلق پوچھا تو پتہ چلا کہ وہاں کا انچارج ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر رینک کا طارق نامی افسر ہے جو کسی کیس کی پیشی بھگتنے ہائیکورٹ گیا ہوا ہے۔ جب یہ پوچھا گیا کہ طارق کی غیر موجودگی میں کس کے سامنے شکایت رکھی جاسکتی ہے تو جواب ملاکہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے علاوہ یہاں کوئی بھی شکایت سننے اور اس کا ازالہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اس کے بعد وہاں یہ دیکھا کہ پاسپورٹ آفس کسی قاعدے قانون کے تحت نہیں بلکہ ایجنٹوں کی مرضی اور صوابدید کے مطابق چل رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک اوورسیز پاکستانی جس کی بیوی صبح خود سے پہلے آنے والی سات خواتین کے بعد لائن میں لگی تھی، اسے ٹوکن کے بغیر لگنے والی اولین لائن کے بعد دوسری لائن میں جو ٹوکن دیا گیا اس کا نمبر 190تھا۔ وہاں الگ الگ لائنوں سے اندر جانے والے مردوں اور عورتوں کوایک ساتھ ٹوکن دیئے جانے کی وجہ سے اگر یہ تصور کر بھی لیا جائے کہ مذکورہ خاتون سے پہلے آنے والے مردوں کو پہلے ٹوکن دیئے گئے تو پھر بھی اس کا ٹوکن نمبر زیادہ سے زیادہ 20ہونا چاہیے تھا ۔ صبح دفتر کھلنے سے بھی پہلے وہاں آنے والی خاتون کو 20نمبر کی بجائے، 190نمبر ٹوکن وہاں ٹوکن دینے کے لیے اختیار کیے گئے فارمولے کی وجہ سے ملا۔ پاسپورٹ آفس شادمان لاہور میں 11مارچ2024کو عملے کا ٹوکن جاری کرنے کا فارمولا کچھ یوں تھا کہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد لائنوں میں لگے پانچ مردوں اور پانچ عورتوں کو ٹوکن جاری کرنے والے حصے میں جانے دیا جارہا تھا مگر ایجنٹوں کے ذریعے آنے والے لوگ مسلسل اند ر بھیجے جارہے تھے۔ دفتر کے باہر 20سے 25ایجنٹ کسی خوف کے بغیر وہاں ہر آنے والے سے یہ کہتے ہوئے معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ لائن میں کھڑا ہونے کی صورت میں کم از کم دو گھنٹے بعد ٹوکن لینے کی باری آئے گی اور لائن میں کھڑے ہونے کے باوجود اگر ساڑھے بارہ بج گئے تو پھر اگلے دن آنا پڑے گا۔ لہذا فوری ٹوکن والی لائن میں کھڑا کرنے کے وہ پچیس سو روپے مانگ رہے تھے جن میں سے کچھ سو روپے سودے بازی کے بعد کم بھی کر لیتی تھے۔
پاسپورٹ آفس میں کام کرنے والے ایک پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ سے حاصل کی گئی معلومات اور آنکھوں دیکھے حال کے مطابق ان ایجنٹوں کا سرغنہ وہاں گورے چٹے رنگ اور تنو مند جسم کا مالک، ملک عامر نام کا بندہ ہے۔ ملک عامر کا دست راست ایجنٹ فدا بٹ ہے۔ ملک عامر کے دوسرے قریبی ساتھی کا نام یوسف ہے۔ فدا بٹ اور یوسف کو دیگر ایجنٹ میڈیا پرسن کے طور پر جانتے ہیں لیکن کسی کو یہ علم نہیں کہ ان کا تعلق کس میڈیا ہائوس سے ہے۔ وہاں ڈیوٹی پر مامور پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز میں سے صلاح الدین نامی گارڈ ان کا خاص بندہ ہے۔ کسی کے بتانے پر یقین کرنے کی بجائے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ وہاں نصب سیکیورٹی کیمروں کے سامنے ملک عامر اور یوسف، سیکیورٹی گارڈ صلاح الدین اور پاسپورٹ آفس کے عملہ کی ملی بھگت سے گھنٹوں لائنوں میں کھڑے مرد و خواتین کو نفسیاتی و ذہنی اذیت میں مبتلا کرکے ان لوگوں کو فوری اندر بھیج رہے تھے جن سے انہوں نے 2000سے 2500روپے وصول کئے تھے۔ یہ علم تو نہیں ہو سکا کہ ایجنٹوں کے بٹورے ہوئے پیسوں میں سے پاسپورٹ آفس کا عملہ کتنا حصہ وصول کرتا ہے مگر اتنا اندازہ ضرور ہے کہ اگر عملے کا حصہ نہ ہو تو ایجنٹوں کا انتہائی دیدہ دلیری سے پاسپورٹ آفس کے اندر اور باہر دندناتے پھرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ شادمان آفس میں ہر روز دو سو کے قریب لوگ ایجنٹوں کے ذریعے پاسپورٹ بنواتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کی جانے والی کرپشن کا یومیہ حجم تین سے چار لاکھ روپے ہو سکتا تک ہے۔
11مارچ2024 ء کو پاسپورٹ آفس شادمان لاہور میں جو کچھ دیکھا اس کا حال یہاں بیان کر دیا ہے۔ اگر نئے وزیر داخلہ محسن نقوی اور ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن اینڈ پاسپورٹ کو مفاد عامہ کا ذرا سا بھی احساس ہے تو وہ خود سچ تک پہنچنے کے لیے دفتر میں نصب سیکیورٹی کیمروں سے ریکارڈ کی گئی مذکورہ تاریخ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button