CM RizwanColumn

حب الوطنی کا عصری تقاضہ

سی ایم رضوان
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر الیکشن میں ڈیوٹیز دینے والے سرکاری ملازمین کی تصاویر اور ڈیٹا شیئر کرنے پر سختی سے ردعمل دیتے ہوئے مرتکب عناصر کو سخت سزائیں دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام نے 8فروری کو واضح منقسم مینڈیٹ دیا تاہم کچھ عناصر سوشل میڈیا کو سرکاری ملازمین پر دبا ڈالنے اور انہیں بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ریاست سے اپنی وفاداریاں بدلنے کی سزا آئین کے آرٹیکل 5اور دیگر آرٹیکلز سمیت ملکی قوانین میں واضح طور پر درج ہے جبکہ ریاست پاکستان اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی میں سرکاری ملازمین کا دفاع کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ پرتشدد ٹرولز کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ان کو مثالی سزا یقینی بنائے گی، ریاست اور پاکستان کے عوام کی خدمت کرنے والے ان عظیم سرکاری ملازمین کی وابستگی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
کاش کہ وزیراعظم اس حکم کو تیکنیکی اور انتظامی طور پر مکمل طور پر نافذ کر سکیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ملک میں موجود سیاسی انارکی کافی حد تک عملاً ختم ہو جائے گی لیکن ہمارے خیال میں یہ کام بہت مشکل ہے کیونکہ ریاست تو ابھی تک نو مئی کے ان مجرموں کو سزا نہیں دے سکی جن کو یہی سوشل ٹرولز نے معاونت دی تھی اور سانحہ نو مئی کے ملزمان کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے ابھی تک سرگرم عمل ہیں اس پر مستزاد یہ کہ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتائج نے نو مئی کے ذمہ داروں کو یہ کہنے کی جرات دے دی ہے کہ اس سانحہ کو اب بھول جائیں اور آگے کی بات کریں۔
سوشل میڈیا ٹرولز کے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی اگر پنجاب کی حد تک بات کریں تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب آزاد اُمیدواروں نے الیکشن جیتنے کے پرانے طریقہ کار کو تبدیل کر کے رکھ دیا، روایتی طرز کا برادری سسٹم بھی کام آ سکا اور نہ ہی دھڑا بندی موثر رہی۔ حلقہ کی سطح پر ووٹرز کی تقسیم بلحاظ عمر، زبان، نسل، مسلک، معاش اور دیہی و شہری امتیاز کے معیار پر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ یوں الیکشن لڑنے کا پرانا طریقہ کار غیر موثر ہو کر رہ گیا۔ اس اچانک تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے پلڑے میں ووٹ ڈالنے والے ووٹرز شاید الیکشن سے بہت پہلے اپنے ووٹ کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس ضمن میں اُن کی ذہن سازی میں سوشل میڈیا کلیدی کردار ادا کر چکا تھا۔ دوسری پارٹیوں سے تقابل یہ بتاتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے ووٹرز کی ذہن سازی کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا لیکن دوسری جماعتوں کے لیڈر سوشل میڈیا کے موثر ہونے کے حوالے سے لاعلم یا بے عمل رہے بلکہ اس کے برعکس پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو جب پاکستان تحریکِ انصاف برسر اقتدار تھی تو اس کو سوشل میڈیا کی جماعت کا طعنہ دیتی رہیں۔ یہاں تک کہ بعد ازاں جب بانی پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم ٹک ٹاک کا استعمال کرنا شروع کیا تو دونوں جماعتوں کے بعض لیڈروں نے اُن کو ٹک ٹاک کا وزیراعظم کہہ کر بھی طعنہ زنی کی یوں پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا جماعت کا طعنہ دینے والی جماعتوں کو اُس وقت ادراک نہ ہو سکا کہ اگلے الیکشن کا میدان ڈیجیٹل پلیٹ فارم قرار پائے گا۔
یاد رہے کہ جب پی ٹی آئی برسرِ اقتدار تھی تو صدر ہائوس، وزیراعظم ہائوس اور پنجاب گورنر ہائوس میں سوشل میڈیا سے وابستہ نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کی کئی میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔ پھر جب 2022میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تمام سرکردہ جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی تو عمران خان کے دیرینہ بیانیہ کہ یہ سب ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی۔ پی ڈی ایم کی حکومت لوگوں کو ریلیف دینے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی، اُلٹا مہنگائی نے ہر طبقہ کو متاثر کر کے رکھ دیا گو کہ یہ ساری معاشی خرابی خود پی ٹی آئی حکومت کی پیدا کردہ تھی مگر سوشل میڈیا پر چلائے گئے ان ٹرینڈز نے نوجوانوں کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ پی ٹی آئی اور اس کے بانی کو مسیحا سمجھنے لگے اور ان کی ہر حال میں پیروی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے لیکن بانی پی ٹی آئی نے کمال ہوشیاری سے اس نوجوان طبقہ کو فوج کے سامنے مقابلے پر لا کر کھڑا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ نو مئی کے واقعہ میں پی ٹی آئی لیڈروں اور ورکرز نے اپنے تئیں جبر کے شکنجوں کو توڑنے کے چکر میں اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف وہ کچھ کر دیا جو کہ پاکستان کے ازلی اور ابدی دشمن بھی کبھی نہ کر سکتے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ریاست کی جانب سے فوری طور پر تو سب کچھ کرنے کا عندیہ دیا گیا مگر ریاست اس سنگین ترین جرم کے ذمہ داروں کو آج تک قوم کے سامنے عبرت اور نفرت کا نشان بنا کر پیش نہیں کر سکی۔ اس تاخیر اور غفلت کے دوران آج تک یہ لوگ خود کو سوشل میڈیا پر زیر عتاب اور ریاست کو ظالم قرار دے کر روزانہ کی بنیاد ٹرینڈ بنا کر اپنے ہمنوائوں میں روز بروز اضافہ کر رہے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے اس گفتنی جبر اور ان فرضی ناانصافیوں کی سوشل میڈیا پر تشہیر اور پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات میں چند نشستیں زائد مل جانے کی بنا پر اب نو مئی کے حالات کے بعد کی طرح اس بار بھی مظلومیت کارڈ کا استعمال کرنے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹرولز کو ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کے کئی طریقے اور کئی جواز مل گئے۔ اس کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ووٹرز کے پاس ووٹ ڈالنے کے وہی پرانے جواز اور گھسے پٹے طریقے تھی۔ ان کے پاس ان پارٹیوں کی طرف سے دی گئی کوئی جذباتی لائن یا کوئی ایسی تحریک نہیں تھی جو اُن کو پہلے زیادہ سے تعداد اور تردد کے ساتھ گھروں سے نکلنے پر اُبھار دیتی۔ پی ٹی آئی کا ورکر اپنے جھوٹ کی بنیاد پر بنے ہوئے مسیحا کی قید پر غصے اور جوش میں تھا جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ورکرز اور ووٹرز کے پاس اس طرح کا کوئی غصہ یا ردِعمل نہیں تھا، جس کا وہ اپنے ووٹ کی پرچی سے اظہار کرتا۔ بعینہ 2018میں ن لیگ کے ووٹرز کے پاس کئی جواز تھے۔ اُن کا لیڈر اپنی وزارتِ عظمیٰ کی مُدت پوری نہ کر سکا تھا، وہ تاحیات نااہل بھی ٹھہرایا گیا تھا۔ بیماری کی حالت میں جیل بھی کاٹ رہا تھا مگر اس سب کے باوجود ن لیگ اُس جواز میں بھی وہ اثر پیدا کرنے سے قاصر رہی تھی، اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا تھا، جو موجودہ دور میں تشہیر اور پراپیگنڈے کا تیز ترین اور تیر بہدف ہتھیار بن چکا ہے۔
یہاں ایک مثال سے سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کے تیر بہدف اثرات کا نظارہ بھی ضروری ہے۔ مثال کچھ یوں ہے کہ انتخابی سروے اور سٹریٹیجی پر کام کرنے والے ایک ادارے ڈیٹا ورس نے اگست 2022ء میں ان چند حلقوں میں جہاں روایتی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کا زور رہا تھا کے ووٹ بینک کا جائزہ لیا۔ ان علاقوں میں سوشل میڈیا کے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا، گو کہ قومی اسمبلی کے یہ دیہی حلقے تھے۔ یہاں صرف ایک حلقہ کی بات کرتے ہیں جو کہ اوکاڑہ کا ایک حلقہ جس کا 2018ء کے الیکشن میں نمبر 143تھا یہاں سے مسلم لیگ ن کے ایم این اے را اجمل خان نے 54ہزار کی برتری سے نشست اپنے نام کی تھی۔ اس حلقہ میں جو نجی چینل زیادہ دیکھا جاتا تھا، وہ پی ٹی آئی کا شدید حامی تھا۔ اس چینل کے جملہ اینکر بھی پی ٹی آئی کے حامی تھے جبکہ اس چینل کا مواد سمارٹ فونز پر زیادہ دیکھا جاتا تھا اور دیکھنے والوں میں بزرگ افراد کی تعداد کثرت سے تھی۔
جب آٹھ فروری 2024ء کے الیکشن کا رزلٹ آیا تو اس کے مطابق را اجمل خان کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار نے لگ بھگ 25ہزار ووٹوں سے شکست دی ہوئی تھی۔ یعنی 2018ء میں 54ہزار ووٹوں کی برتری رکھنے والا امیدوار 2024ء کے الیکشن میں 25ہزار کے بھاری مارجن سے شکست کھا بیٹھا۔ اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کا پس منظر بھی پی ٹی آئی کا نہیں لیکن وہ اس کے باوجود ایک ایسے امیدوار سے جیت گیا، جو الیکٹ ایبل تصور ہوتا ہے اور قومی اسمبلی کا حلقہ بھی ن لیگ کے ووٹ بینک کے لحاظ سے شہرت رکھتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا وہ اثر ہے الیکشن سے قبل کئے گئے تمام سرویز اور تجزیات پر حاوی آ گیا ہے حالانکہ رائو اجمل نے بہت عمدہ طریقے سے اپنی مہم چلائی لیکن اس سے قبل سوشل میڈیا وار نے ووٹرز کی جو ذہن سازی کی تھی وہ کام دکھا گئی۔ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے جس موثر طریقے سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کیا، اُس نے ووٹرز کو قابو کیے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ووٹرز کی ذہن سازی ایک عرصہ سے مسلسل ہو رہی تھی۔ ملک بھر کے دیہی علاقوں میں جو ووٹرز سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے اثرات میں آ رہا تھا، اسے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر زیادہ مواد پی ٹی آئی کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہا تھا اور بانی پی ٹی آئی کے خلاف متبادل آوازوں ( جیسا کہ نواز شریف اور مریم نواز) کی کمی تھی۔ اگر یہ آوازیں تھیں بھی تو جذباتیت اور تڑپا دینے والے اثرات سے یکسر خالی تھیں۔
الیکشن 2024ء میں پی ٹی آئی ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر اپنی مہم میں جدت متعارف کروانے کے حوالے سے بھی سبقت لے گئی، چاہے ورچوئل پاور شو ہو، ٹک ٹاک جلسہ ہو، روزانہ کی بنیاد پر ٹوئٹر سپیس کا استعمال ہو یا بانی پی ٹی آئی کی پرانی تقاریر کو دوبارہ براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چلانا ہو، یہاں تک کہ الیکشن کے بعد اے آئی کی مدد سے تیار کردہ بانی پی ٹی آئی کی وکٹری سپیچ ہو۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم نے ہر قسم کے حالات میں جدت کے ساتھ اپنے ووٹر تک اپنا پیغام پہنچایا۔ دوسری طرف پرانی سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن نے روایتی انداز میں انتخابی مہم چلائی اور روایتی اخباری اشتہارات کا ہی سہارا لیا جو اب نوجوان پڑھتے بھی نہیں۔ اب یہ حقیقت بے شک موجود ہے کہ پی ٹی آئی جب تک ملکی سیاست میں موثر رہے گی ملک میں سیاسی، معاشی، سماجی اور اخلاقی اعتدال نہیں آئے گا بانی پی ٹی آئی چاہے شر اور شرارت کے لئے ہی یہ سارا ڈرامہ رچا رہے ہیں لیکن ڈرامہ یہی چلتا رہے گا جب تک ریاست ترجیحی، تکنیکی اور انتظامی بنیادوں پر مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اس فتنہ کی سرکوبی کا عمل نہ شروع کر دے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو یقیناً حب الوطنی کا عصری تقاضہ بھی پورا نہ ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button