تازہ ترینخبریںپاکستان

سائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل ٹرائل پر حکمِ امتناع میں کل تک توسیع

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر حکم امتناع میں کل تک توسیع کر دی۔

جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سماعت کی۔

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سیکیورٹی خدشات سے متعلق رپورٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن کل طلب کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن کل پیش کر دیں۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آپ پہلے اٹارنی جنرل کے اعتراضات پر جوابی دلائل دیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی کا معاملہ بھی اہم ہے، عدالت کے سامنے کچھ حقائق رکھوں گا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات عدالت کے سامنے رکھیں، دستاویزات کے مطابق جج کی تعیناتی کا پراسس ہائی کورٹ سے شروع ہوا، کیس کے جیل ٹرائل سے متعلق اختیار عدلیہ کے پاس ہے، ایگزیکٹیو نے اس پر عمل کے لیے انتظامات کرنا ہوتے ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں سینکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، حکومت نے ایک مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیا، شاہ محمود قریشی کو اتوار کو احاطہ عدالت میں جج کے سامنے ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا، 16 اگست کو اوپن کورٹ میں جوڈیشل ریمانڈ منظور کیا گیا، اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کا عدالت میں پیش کیے بغیر جوڈیشل ریمانڈ منظور ہوا، الیکٹرانک میڈیا کو ہدایات دی گئیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا نام نہیں چلانا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائیں جن میں اسپیشل رپورٹس بھی ہیں، سی سی پی او کا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے، سیکیورٹی خطرات کے باعث جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس لیٹر کا تب پتہ چلا جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائیں۔

جسٹس گل حسن نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ کا ذکر بھی نہیں، نہ ہی وزارتِ داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر ہے، حکومت جیل ٹرائل کے لیے پراسیکیوشن کے ذریعے بھی درخواست دے سکتی ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کی درخواست پر عدالت نوٹس کر کے فریق کو سننے کے بعد فیصلہ کر سکتی ہے، جج کی جانب سے 2 اکتوبر کو لکھا گیا خط بھی پڑھنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے، جج نے اس خط میں پوچھا کہ ملزم کو پیش کرنے میں کوئی مشکلات تو نہیں؟ جج اس خط میں پوچھ رہے تھے کہ آپ مناسب سمجھیں تو جیل ٹرائل کے لیے تیار ہوں، جج نے کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا، جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے، جس سیکشن کا حوالہ ہے اس کے تحت عدالت کا وینیو بدلا جا سکتا ہے لیکن جیل ٹرائل کا ذکر نہیں، یہ سزائے موت یا عمر قید کا کیس ہے، اس میں سختی سے قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سوال کیا کہ اگر سیکیورٹی خدشات ہوں تو حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ حکومت کو یہ معاملہ متعلقہ جج کے سامنے رکھنا چاہیے تھا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ راجہ صاحب! آپ اپیل کے قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل دیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وزارتِ قانون کا 29 اکتوبر کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن درست نہیں، یہ بھی کنفیوژن ہے کہ جیل ٹرائل کا مقصد کیا ہے؟ ایسا سیکیورٹی خدشات کے باعث ہے یا حساس کیس کے باعث پبلک کو اس سے دور رکھنا ہے، جیل ٹرائل کا واحد مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو منظر سے غائب کرنا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ پٹیشنر کو بہرحال سیکیورٹی تھریٹس تو ہیں، آپ پہلے اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اپنے دلائل مکمل کر لیں، آپ کے بعد ہم اٹارنی جنرل کے جوابی دلائل سنیں گے، عدالت کیس قابلِ سماعت ہونے پر اپنا مائنڈ کلیئر کرنا چاہتی ہے، یقین دہانی کراتے ہیں کہ آپ کو دلائل دینے ہوئے تو دوبارہ موقع دیا جائے گا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سنگل بینچ نے اتنے اہم کیس میں طویل عرصہ فیصلہ محفوظ رکھا، ہم فیصلے کا انتظار کرتے رہے، اس دوران مزید نوٹیفکیشنز جاری ہوئے، ٹرائل کورٹ جج نے کہا کہ حکمِ امتناع نہیں اس لیے وہ کارروائی جاری رکھیں گے، ہر سماعت پر 3 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے جا رہے ہیں، 15 نومبر تک ٹرائل کورٹ میں ہونے والی تمام عدالتی کارروائی غیر قانونی ہے۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں ابھی تک نہیں پتہ کہ اس کیس میں چارج کیا ہے؟ ہم صرف جیل میں ٹرائل اور جج کی تعیناتی کے معاملے پر قانونی نکات دیکھ رہے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میری استدعا ہو گی کہ اگر جیل ٹرائل بھی ہو تو کم از کم جج تبدیل کر دیا جائے، شاہ محمود کی بیٹی کو بھی کورٹ کی مداخلت کے بغیر جیل ٹرائل دیکھنے کی اجازت نہیں ملی، پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے۔

جسٹس گل حسن نے کہا کہ جب میں اسپیشل کورٹس کا ایڈمنسٹریٹیو جج تھا تو مجھے شکایات ملتی تھیں، خصوصی عدالتوں کا عملہ وزارتِ قانون کے ماتحت ہوتا ہے، خصوصی عدالتوں کے ججز شکایت کرتے تھے کہ اسٹاف ہماری بات نہیں سنتا، وہ ججز حتیٰ کہ ہائی کورٹ بھی اسٹاف کے خلاف ڈسپلنری کارروائی نہیں کر سکتی، یہ چیزیں عدالتوں کے لیے انصاف فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں 3 احتساب عدالتوں کی منظوری دی گئی، ان کے پورے دور میں وہ احتساب عدالتیں قائم نہیں ہو سکیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 12 نومبر سے پہلے کے نوٹیفکیشنز میں کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کابینہ نے کیا قانونی طور پر پراسس مکمل کیا؟ کابینہ کی منظوری سے پہلے جو ٹرائل ہو چکا اس پر کیا اثرات ہوں گے؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو ٹرائل 12 نومبر تک ہوا وہ کالعدم ہو گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت کو ایک ایک کر کے بتائیں پراسس کیا تھا جس کو فالو کرنا ضروری تھا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پراسس مکمل کرنے سے پہلے کے ٹرائل کو صرف بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے، عدالت سے استدعا ہے کہ کابینہ کی منظوری سے پہلے کا ٹرائل کالعدم قرار دیا جائے۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا آپ ڈکلیئریشن چاہ رہے ہیں؟ پبلک کو عدالتی کارروائی سے باہر رکھنے کا اختیار متعلقہ جج کا ہے، اٹارنی جنرل کہہ رہے ہیں جج کی طرف سے پبلک کو باہر رکھنے کا کوئی آرڈر موجود نہیں، اٹارنی جنرل کے مطابق ایسا آرڈرنہ ہونے کے باعث اسے اوپن ٹرائل تصور کیا جائے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس کا ٹرائل 23 اکتوبر کو فردِ جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، اس سے پہلے کی تمام عدالتی کارروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ جج نے سیکیورٹی خدشات سے متعلق جو خط لکھا ان کے پاس کیا معلومات تھیں؟ کیا اسپیشل رپورٹس ان کے ساتھ شیئر کی گئی تھیں؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ بات عمومی طور پر پبلک ڈومین میں تھی اور عدالت کو بھی اس کا علم تھا، ریمانڈ کے لیے بھی جج کو جیل جانا پڑا تو انہیں اس بات کا احساس تھا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ تھینک یو مسٹر اٹارنی جنرل، ٹرائل کورٹ کے جج نے کس مواد کی بنیاد پر پہلا خط لکھا؟ اگر میرٹ پر دلائل سنتے ہیں تو آپ کو اِس نکتے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ میں پبلک کو ٹرائل سے باہر رکھنے کی درخواست دائر کی، جج نے آرڈر میں لکھا کہ ابھی تو پبلک کیس کی سماعت میں موجود ہی نہیں، جج نے لکھا کہ جب پبلک موجود ہو تو پھر اس معاملے کو دیکھیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل فیملی اور پبلک کو دور رکھنے کے لیے ہی کیا جا رہا ہے، میڈیا، فیملی اور پبلک کو ٹرائل سے دور رکھنا محض بےضابطگی نہیں، استدعا ہے کہ پہلے ہوا ٹرائل کالعدم قرار دیا جائے، بغیر دستاویزات فراہم کیے فردِ جرم عائد کی گئی، اسے معمولی بے ضابطگی نہیں کہہ سکتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔

عدالت نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی تعیناتی کے حوالے سے پوچھنا تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی کا پراسس کیا تھا؟ جیل میں ٹرائل کنڈکٹ کرنے کی اجازت سے قبل کیا ہائی کورٹ کو آگاہ کیا گیا؟

رجسٹرار ریکارڈ کا جائزہ لے کر عدالتی سوالوں کا جواب دیں گے۔

رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ سردار طاہر صابر کمرۂ عدالت سے چلے گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج کے لیے پہلا خط ہائی کورٹ نے لکھا یا وزارتِ قانون نے کام شروع کیا؟

جسٹس گل حسن نے کہا کہ ہم سماعت کو آج یہاں ختم کرتے ہیں اور کل یہاں سے ہی دوبارہ شروع کریں گے۔

سائفر کیس کے جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے۔

عدالت نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر آج تک حکمِ امتناع جاری کر رکھا ہے۔

گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر کابینہ کی منظوری سے آگاہ کیا تھا۔

جواب دیں

Back to top button