
جب اسرائیل کی فوج نے غزہ کے شہریوں کو دھمکی دی کہ شمالی غزہ کو خالی کر دیں تو رحمہ ثقاء اللہ اور ان کا خاندان جنوبی غزہ میں نقل مکانی کر گئے۔ کہ وہاں محفوظ رہنے کی امید تھی۔ لیکن جنوبی غزہ میں موجودگی میں اسرائیلی بمباری سے رحمہ ثقا اللہ کے شوہر اور تین بچے شہید ہو گئے۔
اب رحمہ ثقاء اللہ واپس شمالی غزہ آ رہی ہیں۔ مگر ان کے شوہر اور تین بچے داود، محمد اور ماجد ان کے ساتھ نہیں صرف ان کی یادیں اور بے بسی کی موت کے مناظر ساتھ ہوں گے۔ ہاں رحمہ اپنے بچ جانے والے بچے کے ساتھ جنوبی غزہ کی بستی خان یونس سے واپس غزہ پہنچیں گی۔
رحمہ ان چھ لاکھ فلسطینیوں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ کے حکام کہتے ہیں اتنی بڑی تعداد غزہ سے اسرائیلی دھمکی کے بعد نکل بھاگی ہے۔ کہ اسرائیل نے کہا تھا ‘یہ آپ کے اپنے بچاو کے لیے ضروری ہے۔’
اسرائیل سات اکتوبر سے مسلسل نہ تھکنے والے انداز میں غزہ پر بمباری کر رہا ہے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اب تک 7000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
لیکن اب تازہ بمباری جنوبی غزہ میں بھی ہوئی ہے۔ یعنی اسی طرف جدھر اسرائیل لوگوں کو خود گھیر کر لانے کے لیے دھمکی نما حکم دے رہا تھا۔
لیکن مسلسل بمباری کے بعد اب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 300000 نقل مکانی کر کے جنوبی غزہ پہنچنے والے فلسطینی اب واپس شمالی غزہ کی جانب واپس جا رہے ہیں۔
ان میں سے بہت سے خان یونس ایسی گنجان آبادی میں رہائش پانے میں ناکام ہوئے۔ خان یونس کی طرف تو نقل مکانی کرنے والے سب لوگ آ رہے تھے۔ لیکن رحمہ کے میاں اور ان کے تین بچوں کی واپسی ناممکن ہے۔ یہ خاندان نقل مکانی کرنے کے بعد بمباری کا نشانہ بنا ہے۔
جیسا کہ ایک بین الاقوامی ادارے سے وابستہ میڈیا ورکر کے اہل خانہ بھی اسی نقل مکانی کے بعد بمباری کی زد میں آئے۔
رحمہ کا خاندان جس میں 47 سالہ شوہر کے علاوہ 18 سالہ داود، 15 ساالہ محمد اور نو سالہ ماجد شامل ہیں منگل کی صبح بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ اگلے ہی روز رحمہ نے واپس شمالی غزہ جانے کا اردہ باندھ لیا۔ لیکن جب بدھ کو واپس جانے کا فیصلہ کر رہی تھی تو یہ وہی دن تھا جب اس کے 15سالہ بیٹے شہید ہو چکے بیٹے محمد کی سالگرہ کا دن تھا۔
رحمہ کا کہنا ہے کہ ‘اس روز جب منگل کا دن تھا اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے اپارٹمنٹس کی عمارات کا دوسرا اور تیسرا فلور تباہ ہو گیا اور تقریبا 60 لوگ اور کئی خاندان شہید ہو گئے۔ ‘
‘اس بمباری سے ہمارے رشتہ دار خاندان کے 11 افراد شہید ہوئے، اور دیگر خاندانوں کے 26 افراد شہید ہو گئے۔ میرے خاندان میں اب صرف میں ہوں اور میرے ساتھ میری سترہ سالہ بیٹی رغد ہے۔ لیکن میں اپنے آپ کو زندہ اور ٹھیک کہنا مشکل محسوس کرتی ہوں۔
’انہوں نے غزہ کو تباہ کر دیا ہے ۔ وہ اسے ایک قبرستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کہا کہ جنوب کی طرف چلے جاؤ اور پھر ہمیں وہاں بھی بموں سے نشانہ بنایا۔ نتن یاہو ایک جھوٹا شخص ہے۔’ رحمہ کی اس سچائی کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔
رحمہ نے کہا ‘اب میری طرح کے اور بہت سے لوگ بھی واپس اپنے گھروں کی طرف جا رہے ہیں۔ ‘
انہی ‘حق واپسی’ کے عزم سے سرشار لوگوں میں ایک خاندان عبداللہ ایاد کا ہے۔ ان کی اہلیہ اور پانچ بیٹیاں موٹر سائیکل والے ایک چھکڑے پر سوار ہیں۔ وہ بھی واپس غزہ جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے دیر البلح ہسپتال میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
‘ہم واپس اپنے گھر میں مرنے کے لیے جارہے ہیں۔ اپنے گھر میں مرنے میں عزت ہو گی۔ گھر کو چھوڑنے کے بعد ہم توہین آمیز ماحول میں تھے۔ کھانے کو کچھ تھا، نہ پینے کے لیے۔ حتیٰ کہ ‘واش روم’ تک میسر نہ تھے اور اوپر سے بمباری اندھا دھند، بار بار۔’
کئی لوگ جو شمالی غزہ کو واپس جانے کی کوشش میں ہیں، بظاہر ان کے لیے اپنے گھروں کو پہنچنا غیر ممکن ہے۔ راستے میں بار بار بمباری، شدید تر بمباری اور ہر طرف بمباری جاری ہے۔ لیکن یہ اپنے ‘حق واپسی’ کے لیے پر عزم ہیں۔
محمد ابو الناحل نے کہا ‘میں میری بیوی اور میرے بچے اور میرا بردر نسبتی ۔ لگ بھگ 40 افراد ۔ ہم ایک خٰیمے میں رہتے ہیں۔ یہ خیمہ صرف تین مربع میٹر پر محیط ہے۔ یہ جانوروں کے رہنے کے قابل بھی نہیں ہے ۔ ‘